جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
Email: friendsfoundation@live.co.uk
آج ہم یوم دفاع کی پچاسویں سالگرہ منا رہے ہیں لیکن ہمارا ملک اندرونی و بیرونی خطرات کی زد میں ہے۔ایک طرف ہم مغربی سرحدوں پردہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں تو دوسری جانب بھارت نےمغربی سرحدوں پر بلاجواز کشیدگی کی فضا پیدا کر کے ہمارے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس صورت حال کے پیدا ہونے کےاسباب کیا ہیں اورہم کس طرح ان کامقابلہ کرسکتے ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کئی پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا تعلق افغانستان کے حالات سے بھی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے مخالفین کی کاروائیوں سے بھی۔ اندرون ملک سیاسی منظر نامے کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہماری فوج گذشتہ ایک سال سے دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ ان تمام باتوں کے اثرات اب ہمیں نظر آ رہے ہیں۔ سب سے پہلے افغانستان کے تعلق کا جائزہ لیتے ہیں۔
افغانستان میں بہت تیزی سے حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تمام سازشوں کے باوجود طالبان افغانستان میں غالب ہیں۔ امریکی افواج کے نکلنے کے بعد طالبان مخالف لوگ آنے والے خطرے کا اندازہ لگا کر ملک چھوڑ کر امریکہ اور یورپ کی طرف بھاگ رہے ہیں کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ مستقبل میں یہاں پھر طالبان کی حکومت ہوگی۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف سب سے بڑا خطرہ بھارت کے قائم کیے ہوئے جاسوسی نیٹ ورک تھاجس کو امریکہ اور اس کے تمام اتحادیوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد حاصل تھی۔ انہی ملکوں کی پشت پناہی کے سبب یہ نیٹ ورک بلوچستان سے لے کر سوات تک دہشت گردی کرتا رہا ہے جس کے بارے میں ’ میں نے 2007 میں اپنے مضامین اور انٹرویوز میں تفصیلات بتائی تھیں اور اب وہ نیٹ ورک افغانستان سے ختم ہوکر پاکستان کے ساحلی علاقوں کی جانب منتقل ہو چکا ہے۔ افغانستان میں اس نیٹ ورک کے ختم ہونے سے بڑا فرق آیا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان میں پاکستان کے باغیوں کی امداد بند ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برہمداغ بگٹی اور دوسرے باغی حکومت پاکستان سے بات چیت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی بوکھلاگئے ہیں کیونکہ امریکہ کے جانے کے بعد وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان ’ چین’ روس‘ افغانستان اور ایران کا ایک اتحاد بنتا نظر آرہا ہے جس میں بھارت شامل نہیں۔ بھارت انتقام اور حسد کی آگ میں جل رہا ہے اور پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان کے دوستوں پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ تقریبا 27 سال کے بعد کوئی بھارتی وزیر اعظم سری لنکا گیا اور 32 سال بعد کسی بھارتی وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور وہاں سے بھارت میں 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی بات کی۔ پھر بھارت نے افغانستان سے نکلنے کے بعد اپنی جاسوسی اور سازشوں کا جال پاکستان کے ساحلی علاقوں میں پھیلا دیا ہے۔
بلوچستان میں چندہفتے پہلے جیوانی کے ائر پورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا ہے۔ اس سے آگے بڑھیں تو کوٹ کلمات کا anchorage ہے جسے امریکہ بھی ایران میں دہشت گردبھیجنے کیلئے استعمال کرتا رہا ہے۔ اسی ساحلی پٹی پر آگے جہاں دریائے ہنگول سمندر میں گرتا ہے یہ مچھیروں کی بندرگا ہ ہے۔ ان علاقوں کو بھارت اب اپنی سازشوں کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق ‘کیٹی بندر’ جو پورٹ قاسم کے نزدیک ہے وہاں سےبھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہےاور ہماری سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کا بہت بڑا ذخیرہ پکڑا ہے جس میں جدید ہتھیار’ کرنسی اور شراب پاکستان کے شرپسندوں تک پہنچائی جاتی رہی ہے۔ اس مذموم کاروبار میں ہماری کچھ اہم شخصیات ملوث پائی گئی ہیں۔ بھارت نے اپنی سرزمین اور دوسرے ساحلی علاقوں سےپاکستان کے نزدیکی ساحلی علاقوں میں مداخلت کا ایک نیا نیٹ ورک بنا لیا ہے۔ سونے’ شراب اور کرنسی کی رقم سےدہشت گردوں کو معاوضہ اور ہتھیار دیے جاتے ہیں۔ بھارت کا یہ نیا نیٹ ورک بہت تیزی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ہمارے انٹیلی جنس اداروں نے ایک دو مقامات پر کامیاب چھاپے بھی مارے ہیں اور ان پر پاکستان میں اس نیٹ ورک کیلئے کام کرنے والوں کے ناموں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان کے خلاف جارحیت کی یہ نئی شکل اختیار کی ہے۔ وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان برطانیہ اور نیٹو اتحادیوں کو جن باتوں سے آگاہ کرنے کیلئے گئے ہیں ان میں بھارت کی اس مداخلت کا ذکر بھی شامل ہے کہ بھارت کس طرح پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور وہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کی سرپرستی کر رہا ہے۔مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں ہر طرح کا انتشار پیدا کیا جائے جو اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ہمارے اپنے اندر سے لوگ شامل نہ ہوں۔
ہماری فوج مشرقی اورمغربی سرحدوں پر اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ جنگ اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اگر بھارت کشمیر میں کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سرحدوں پر بھی کوئی مہم جوئی کرے۔ ایسے میں پاکستان کو جواب دینا پڑے گااور حکمت عملی موجود ہے کہ کس طرح شمالی سرحدوں کو اور ان علاقوں کو’ جو فوج کے زیر انتظام ہیں ’محفوظ بناتے ہوئے بھارت کے مقابلے کیلئے تیار ہوجائیں۔ 24 گھنٹوں کے اندر اندر شمال مغربی سرحدوں سے ہماری فوج’ مشرقی سرحدوں کی دفاعی ذمہ داریاں سنبھال لے گی۔
اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت کی سوچ نہایت مضبوط اور پیشہ ورانہ ہے۔ یہ وہ فوج نہیں جو 1965میں تھی اور نہ ہی 1971 والی فوج ہے۔ جب میں آرمی چیف تھا ’ اس وقت ہم نے اپنی جنگی صلاحیت کو بڑھایا۔ 1965 کی جنگ میں ہمارے پاس صرف گیارہ دن تک لڑنے کی صلاحیت تھی۔ اس صلاحیت کو جنگی اصطلاح میں وار ریزرو (War Reserve)کہتے ہیں’ہم نے اسےبڑھایاجوچالیس دنوں تک پہنچ گئی تھی’ جبکہ بھارت کی وارریزرو کی صلاحیت فی الوقت پندرہ دنوں سے بھی کم ہے۔1965 کے وقت ہم دوست ممالک سے ہتھیار اور ایمونیشن مانگتے رہے لیکن الحمدوللہ آج فوج کے ہتھیاروں اور دیگر آلات کے حوالے سے ہماری خود انحصاری 90 فیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔ ہم نے پاک فوج کی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے 1989 میں ضرب مومن مشقوں کا انعقاد کیااور پاک فوج نے جارحانہ دفاع کی بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اگر بھارت نے اب جنگ چھیڑی تو یہ جنگ فیصلہ کن ہوگی اور بھارت کی سرزمین پر لڑی جائے گی جس کے بعد مقبوضہ کشمیر آزاد ہوگا اور خالصتان بھی وجود میں آجائے گا۔
1965 ء میں تو ہمارا بھارت کی جنگی صلاحیت سے کوئی موازنہ نہیں تھا لیکن ہم نے پھر بھی بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔ بھارت بھول گیا ہے کہ ہمیں اب جہاد افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تجربہ ہے’ یعنی ہمیں روایتی اور غیر روایتی جنگوں کا طویل عرصے تک لڑنے کا وسیع تجربہ ہے۔ بھارت نے اگر ہم سے جنگ کی تو وہ جنگ انشاء اللہ بھارت کی سرزمین پر ہوگی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ 1965ءکی جنگ کے وقت ہماری عسکری قیادت کی اعلی تعلیم اور اسٹریٹیجک پلاننگ کی صلاحیت سٹاف کالج کی حدتک محدود تھی لیکن اب ہماری اعلی عسکری قیادت کی صلاحیت اور عزم بہت بلند ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وار پلان کیسے بنایا جاتا ہے۔ جنگ کیسے لڑی جاتی ہے اور جنگی وسائل کو اکٹھا کرکے اپنے مقاصد کو کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔1980-82 میں جب پاکستانی فوج کی ترویج نو کا پلان بنایا گیا تو وہ اعلی تعلیم یافتہ عسکری قیادت ہی نے تیار کیا جسے عملی جامعہ پہنانے میں برادر ملک چین نے ہر طرح کی مدد کی اور دس سال کے مختصر عرصے میں ہماری افواج نے ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کی صلاحیت حاصل کر لی۔
جولوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا وہ غلط ہیں۔ ایٹمی ہتھیار Balance of Terrorقائم کرنے کیلئے ہوتے ہیں اور جنگ میں کامیابی کی ضمانت بھی نہیں ہیں ورنہ سوویٹ یونین ہزاروں ایٹمی ہتھیار رکھنے کے باوجود ٹوٹ نہ جاتا۔امریکہ کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیار تھے لیکن اسے افغانستان اور عراق میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اسرائیل کو لبنان اور غزہ میں شکست نہ ہوتی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری توازن اس بات کی ضمانت ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی صلاحیت استعمال نہ کر سکیں گے۔ مثلا 1945 میں جنگ عظیم دوم کے اختتام پر امریکہ ’ جاپان کے خلاف ایٹمی حملہ کرنے کی جرات نہ کرتا اگر اسے معلوم ہوتا کہ جاپان بھی نیویارک یا واشنگٹن پر ایک ایٹم بم گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی حقیقت ہے اس ہتھیار کی کہ 1990 میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے محدود ایٹمی پالیسی بنائی تھی’ یہ جانتے ہوئے کہ ہمارے پاس صرف دس اور بھارت کے پاس ساٹھ ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت تھی اور آج بھی ہماری پالیسی یہی ہے۔