جنرل مرزا اسلم بیگ کا انٹرویو
سوال : بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ بائنڈری پر دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ادھر افغان حکومت بھی الزامات لگائے جا رہی ہے۔ ان حالات میں کراچی آپریشن کا منطقی انجام کیا ہوگا’ کیونکہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی کے ساتھ سیاسی الجھائو بھی پیدا ہو ا ہے
جواب: دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے کئی پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا تعلق افغانستان کے حالات سے بھی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے مخالفین کی کاروائیوں سے بھی ہے۔ اندرون ملک سیاسی منظر نامے کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہماری فوج گذشتہ ایک سال سے دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ ان تمام باتوں کے اثرات اب ہمیں نظر آ رہے ہیں۔ سب سے پہلے افغانستان کے تعلق کا جائزہ لیتے ہیں۔افغانستان میں بہت تیزی سے حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تمام سازشوں کے باوجود طالبان افغانستان پر غالب ہیں۔ امریکی افواج کے نکلنے کے بعد طالبان مخالف لوگ آنے والے خطرے کا اندازہ لگا کر ملک چھوڑ کر امریکہ اور یورپ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ مستقبل میں یہاں پھر طالبان کی حکومت ہوگی۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف سب سے بڑا خطرہ بھارت کے قائم کیے ہوئے جاسوسی کے اڈے تھےجس کو امریکہ اور اس کے تمام اتحادیوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد حاصل تھی۔ انہی ملکوں کی پشت پناہی کے سبب یہ نیٹ ورک بلوچستان سے لے کر سوات تک دہشت گردی کرتا رہا ہے جس کے بارے میں ’ میں نے 2007 میں اپنے مضامین اور انٹرویوز میں تفصیلات بتائی تھیں اور اب وہ نیٹ ورک افغانستان سے ختم ہوکر پاکستان کے ساحلی علاقوں کی جانب منتقل ہو چکا ہے۔ اس نیٹ ورک کے افغانستان سے ختم ہونے سے بڑا فرق نظر آیا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان میں پاکستان کے باغیوں کی امداد بند ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برہمداغ بگٹی اور دوسرے باغی حکومت پاکستان سے بات چیت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم نریندرامودی بوکھلاگئے ہیں کیونکہ امریکہ کے جانے کے بعد وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان ’ چین’ روس‘ افغانستان اور ایران کا ایک اتحاد بنتا نظر آرہا ہے جس میں بھارت شامل نہیں۔ بھارت انتقام اور حسد کی آگ میں جل رہا ہے اور پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان کے دوستوں پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ تقریبا 27 سال کے بعد کوئی بھارتی وزیر اعظم سری لنکا گئے۔32 سال بعد کسی بھارتی وزیراعظم نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور وہاں سے بھارت میں 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی بات کی ہےاور اہم خبر یہ ہے کہ بھارت نے افغانستان سے نکلنے کے بعد اپنی جاسوسی اور سازشوں کا جال پاکستان کے ساحلی علاقوں میں پھیلا دیا ہے۔ وہ سمندری راستے سے یہ کام کر رہا ہے ۔ بلوچستان میں چند ہفتے پہلے جیوانی کے ائر پورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا ہے۔ اس سے آگے بڑھیں تو کوٹ کلمات کا لنگر اندازی کا مقام ہے جسے امریکہ بھی بلوچستان میں مداخلت کیلئے اور ایران میں دہشت گردبھیجنے کیلئے استعمال کرتا رہا ہے۔ اسی ساحلی پٹی پر آگے جہاں دریائے ہنگول سمندر میں گرتا ہے یہ مچھیروں کی بندرگا ہ ہے۔ ان علاقوں کو بھارت اب اپنی سازشوں کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق قاسم پورٹ کے نزدیک کیٹی بندر سے بھی بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہے جہاں ایک منظم طریقے سے سندھ اوربلوچستان میں ہتھیاروں’ سونے ’ شراب اور کرنسی کی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ بھارت نے اپنی سرزمین اور نزدیکی علاقوں سے پاکستان کےساحلی علاقوں میں مداخلت کا ایک نیا نیٹ ورک بنا لیا ہے۔ سونے’ شراب اور کرنسی کی رقم سےدہشت گردوں کو معاوضہ اور ہتھیار دیے جاتے ہیں۔ بھارت کا یہ نیا نیٹ ورک بہت تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔
ایک دو مقامات پر ہمارے انٹیلی جنس اداروں نےکامیاب چھاپے بھی مارے ہیں اور ان پر پاکستان میں اس نیٹ ورک کیلئے کام کرنے والوں کے ناموں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ان میں بڑے بڑے نامور لوگ شامل ہیں۔ بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان کے خلاف جارحیت کی یہ شکل اختیار کی ہے۔ وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان برطانیہ اور نیٹو اتحادیوں کو جن باتوں سے آگاہ کرنے کیلئے گئے ہیں ان میں بھارت کی اس مداخلت کا ذکر بھی شامل ہے کہ بھارت کس طرح پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور وہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کی سرپرستی کر رہا ہے ۔ جس مقدار میں ہتھیار’ شراب’ سونا اور کرنسی پاکستان میں آرہی ہے اس کے اثرات تو نمایاں ہوں گے۔مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں ہر طرح کا انتشار پیدا کیا جا ئے اور جب تک ہمارے اپنے اس میں شامل نہ ہوں توانتشار نہیں ہو سکے گا۔
سوال: ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر تو آصف علی زرداری سمیت پی پی رہنمائوں نے سخت احتجاج کیا ہے۔
جواب: آصف علی زرداری کو توقع نہیں تھی کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا ۔ آصف علی زرداری کے بیان کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ تشویش اور پریشانی نے لے لی تھی۔ انہوں نے فورا آرمی چیف سے ملاقات کی اور اپنی اس تشویش سے آگاہ بھی کیا۔ آرمی چیف نے واضح کر دیا کہ پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں کوئی بھی ملوث ہوا’ اسے نہیں چھوڑا جائے گا۔ چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت یا اس کے بعض وزراء پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں لیکن جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ ہمارا کام سیاست کھیلنا نہیں۔ ہم ملک دشمنوں اور دہشت گردی کے اس فتنے کو ختم کر کے رہیں گے۔یہ بہت واضح پیغام ہے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ بڑے نامور لوگ ان مذموم حرکتوں میں ملوث ہیں اور بھارت کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔ یہ بالکل صحیح فیصلہ ہے کیونکہ اس وقت ہاتھ روک لینا ان عناصر کو مضبوط بنانے کے مترادف ہوگا۔
سوال: کنٹرول لائن اور ورکنگ باِئونڈری پر بھارتی جارحیت جاری ہے۔ بھارتی آرمی چیف نے تو محدود جنگ کی پیش گوئی بھی کر دی ہے۔ ای ایسے موقع پر جب پاکستان فاٹا سے لے کر کراچی تک امن کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہے’ کیا پاک فوج ایسی کسی جنگ کیلئے تیار ہے۔
جواب: ہماری فوج مشرقی اورشمال مغربی سرحدوں پر اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ جنگ اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ اگر بھارت کشمیر میں کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سرحدوں پر بھی کوئی مہم جوئی کرے۔ ایسے میں پاکستان کو جواب دینا پڑے گا۔ اس لئے پاکستان شمال مغربی سرحدوں کو اور ان علاقوں کے جو فوج کے زیر انتظام ہیں کو محفوظ بناتے ہوئے بھارت کے مقابلے کیلئے تیار ہوگا۔ اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت کی سوچ نہایت مضبوط اور پیشہ ورانہ ہے۔
1989-90 میں ہم نےاپنی جنگی صلاحیت کے دورانیے کو بڑھایاتھا۔ 1965 کی جنگ میں ہمارے پاس صرف گیارہ دن تک لڑنے کی صلاحیت تھی ۔اس صلاحیت کو جنگ یاصطلاح میں وار ریزرو (War Reserve)کہتے ہیں۔ جب میں آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا تو ہماری جنگی صلاحیت چالیس دنوں تک پہنچ چکی تھی۔ فوج کی ہتھیاروں اور دیگر آلات کے حوالے سے ہماری خودانحصاری 90% فیصد تک پہنچی ہوئی ہے’ جبکہ بھارت کی وارریزرو کی صلاحیت فی الوقت پندرہ دنوں سے بھی کم ہے۔ ہم نے پاک فوج کی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے 1989 میں ضرب مومن مشقوں کا انعقاد کیااور پاک فوج نے جارحانہ دفاع کی بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ یہ 25 سال پرانی بات ہے۔اس عرصے میں پاک فوج کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اب ہم 1965 کی طرح اپنے دوستوں کی امداد کے محتاج نہیں ہوں گے۔اگر بھارت نے جنگ چھیڑی تو یہ جنگ فیصلہ کن ہوگی جس کے بعد مقبوضہ کشمیر آزاد ہوگا اور خالصتان بھی وجود میں آجائے گا۔
جولوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا وہ بھی غلط ہیں۔ ایٹمی ہتھیار جنگ کیلئے نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ ہتھیار جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہیں ورنہ سوویٹ یونین ہزاروں ایٹمی ہتھیار رکھنے کے باوجود ٹوٹ نہ جاتا۔امریکہ کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیار تھے لیکن اسے افغانستان اور عراق میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اسرائیل کو لبنان اور غزہ میں شکست نہ ہوتی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری توازن دراصل جنگ کے خلاف ایک مزاحمتی قوت ہے۔اگر پاک بھارت جنگ ہوئی تو روایتی ہوگی ایٹمی نہیں۔ 1965 میں تو ہمارا بھارت کے جنگی صلاحیت سے کوئی موازنہ نہیں تھا لیکن ہم نے پھر بھی بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔ بھارت بھول گیا ہے کہ ہمیں اب جہاد افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تجربہ ہے’ یعنی ہمیں روایتی اور غیر روایتی جنگوں کا طویل عرصے تک لڑنے کا وسیع تجربہ ہے۔ بھارت نے اگر ہم سے جنگ کی تو وہ چند دنوں سے زیادہ نہیں لڑ سکے گا اور ہماری جنگ انشاء اللہ بھارت کی سرزمین پر ہوگی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ 1965 ء میں ہماری عسکری قیادت کی اعلی تعلیم’ سٹاف کالج تک محدود تھی لیکن اب وار کورس کی تعلیم کے سبب ہماری اعلی عسکری تعلیم نے ہماری عسکری قیادت کی صلاحیت اور عزم بہت بلند ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وار پلان کیسے بنایا جاتا ہے۔ جنگ کیسے لڑی جاتی ہے اور جنگی وسائل کو اکٹھا کرکے اپنے مقصد کو کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔
سوال: آپ نے ذکر کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات بھارت میں 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ کیسے ممکن ہوا۔
جواب:دراصل متحدہ عرب امارات نے بھارت کو یہ پیشکش کرکے پاکستان کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ جب خلیج کونسل نے یمن میں فوج بھیجنے کی بات کی تھی تو پاکستان کی طرف سے معذرت کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہماری فوج کرائے کی فوج نہیں’ یہ جنگ یمن والوں کی ہے۔ اس جواب پر متحدہ عرب ارامات کی جانب سے یہ غصے کا رد عمل ہے۔ بھارت نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے لیکن متحدہ عرب امارات کی اقتصادی حالت کا یہ عالم ہے کہ ان کی معیشت ابوظہبی کے قرضوں کی بدولت چل رہی ہے۔ وہ بھارت میں کیسے اور کس طرح 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو مسلم دنیا سے تنہا کر دے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔
سوال: لیکن پاکستان میں تو سیاسی طور پر بہت شوروغل ہے‘ افراتفری کی کیفیت ہے۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سیاسی ہنگامہ برپا ہے۔ایک ہنگامہ عمران خان کا تھا جو لندن پلان تھا جس میں کئی ملکوں کی سازش تھی۔ وہ قصہ تو ختم ہوا۔عمران کی غلطیوںکے سبب ان کی اب وہ پذیرائی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ اس کا ثبوت آنے والے ضمنی انتخابات میں مل جائے گا لیکن اس میں شک نہیں کہ لوگوں کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے۔ نواز شریف کی کوشش ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کے کے معاملات کو سدھاریں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو بھی اسمبلی سے باہر نہیں جانے دیا اور ایم کیو ایم کو بھی یہی کہا کہ وہ استعفے واپس لے لے۔ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حکمت عملی پی ٹی آئی سے زیادہ کامیاب رہی ہے مگر فوج جس کو امن و امان کے قیام کی ذمہ داری دی گئی ہے’ اس نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی سیاسی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ فی الوقت نواز حکومت کو اس کے باوجود کہ ان کے ایک دو رہنمامالیاتی کرپشن کی زد میں آرہے ہیں’ سیاسی طر پر کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس نے اپنے مخالفین کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیاہے۔ لہذا مجھے کوئی بڑی سیاسی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ البتہ کراچی میں امن و امان کی فضا بڑی حد تک بحال ہو جائے گی اور خرابیاں دور ہو جائیں گی۔
سوال: کیا کرپشن کے خلاف بھی کوئی ایکشن پلان فوری بنیادوں پر ہوگا۔
جواب: یہ حکومت پرمنحصر ہے۔وہ قوم پر اپنی سیاسی ساکھ قائم کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کیلئے آئیڈیل وقت ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف بھی ایک ایکشن پلان بنائے’ جبکہ فوج بھر پور طریقے سے اس کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہے۔ بلاکسی امتیاز جو بھی کرپٹ خص سامنے آئے اسے گرفتار کیا جائے اور کیفر کردار رک پہنچایا جائے۔ یہ کام کرنے کیلئے حکومت کے پاس تین سال موجود ہیں۔ اگر وہ یہ کام نہیں کرے گی تو آئندہ انتخابات میں مجھے اس کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ عوام اب تبدیلی چاہتے ہیں۔ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ پیپلز پارٹی ٹوٹ پھوٹ کر سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ عمران خان کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ اپنے ماضی کے کردار کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ عتاب اور مشکلات کا شکار ہیں۔ صرف مسلم لیگ (ن) ہے جو ملک کو کرپشن سے پاک کردے تو اس کا مستقبل روشن ہے ورنہ وہ بھی اپنا یہ مقام کھو دے گی اور کوئی اور جماعت ان کی جگہ لے لے گی۔