جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف’ پاکستان
Email: friendsfoundation@live.co.uk
شام میں روس کی عسکری مداخلت ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے جو کئی سالوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔اس اقدام سے پہلےپیوٹن نے اندرونی مسائل کو حل کیا؛ مسلح افواج کی کارکردگی کو بہتر بنایا اورقریبی پڑوسی ممالک(Near Abroad) کی سلامتی یقینی بنانے کیلئے افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے کا فیصلہ کیا ۔روس کابنیادی ہدف ‘‘ سپر پاور کی حیثیت سےعالمی سیاسی افق پراپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے۔’’ لیکن اعلانیہ یہ کہا جا رہا ہےکہ:
‘‘یورپ کودہشت وبربریت سے محفوظ رکھنے کیلئےروس چوتھی مرتبہ کوشش کر رہا ہے ۔ پہلی مرتبہ منگولوں سےپھر نپولین سے پھر ہٹلر سے اور اب داعش سےنجات دلانے کیلئے میدان عمل میں ہے۔’’
یورپ کی سلامتی یقینی بنانے سے مراد’دراصل پیوٹن کی عالمی امن کے قیام کو یقینی بنانے کی کوشش ہے ۔اندرونی محاذ پر انہوں نے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات کی بنیاد رکھ کر چار ہزارکلومیٹر طویل سرحدپرتصادم کی فضاکوختم کرکے اسےایک بڑی تجارتی منڈی میں بدل دیاہے۔ مدبرانہ پالیسی’ مذاکرات اور معاہدوں کے ذریعےاقتصادی پابندیوں اورتیل کے بحران پر قابو پا لیا گیاہے۔مسلح افواج کو تجدیدی عمل کے ذریعے دنیا کی جدید ترین افواج کے ہم پلہ بنا دیا ہےاور اب روس 20 بلین ڈالر سے زائد کا فوجی سازوسامان بھارت کے ہاتھوں فروخت کر رہا ہے جن میں ایٹمی صلاحیت کی حامل آبدوزیں’ ایس 400 فضائی تحفظ کا نظام’ 400جدید ایم 135 گن شپ’ 127 ساکوئی طیارے اور سمندر سے داغے جانے والے 500میزائل بھی ہیں جنہیں چند ہفتے پہلےدوردراز علاقوں میں متعین بحری جہازوں سے فائر کر کےیمن میں اپنے اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس وقت پیوٹن اپنے پڑوسی علاقوں (Near Abroad) میں روس کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے میں سرگرم عمل ہیں جس کیلئے انہوں نے جارجیا اور کریمیا کوبزورطاقت اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔2004 کے اوائل میں پیوٹن نے ‘‘ولادی مباحثاتی کلب’’ (Vladi Discussion Club)کی چھتری تلے’ سیاسی ماہرین اور دانشوروں کا ایک بڑا گروپ بنا یا جس کے مشوروں سے ‘‘مستقبل میں درپیش آنے والے مسائل اورتصادم کا سامنا کرنے اور پرامن زندگی ’’ کیلئے منصوبے تیار کئے گئےاور انہیں محرکات کے تحت روسی فوج اب شام میں مصروف ہے لیکن ان کا مقصدشیعہ اور سنی تصادم میں فریق بننا نہیں ہے بلکہ شام اور عراق کو لیبیا اور یمن جیسی صورت حال کا شکار ہونے سے بچانا ہے اورشام کو موجودہ دہشت گردی سے نمٹنے کے قابل بنانا ہے۔شام میں اتحادی حکومت کا قیام ممکن بنانے کے بعد بشارالاسد کو دستبردار ہونے کیلئے بھی کہاجاسکتا ہے۔اسی طرح روس ایک مستحکم حکومت بنانے کیلئے عراق کی جانب رخ کرےگا جہاں اتحادی حکومت قائم کرنے کی خاطر وزیراعظم حیدر العبادی کو بھی دستبردار ہونا پڑےگااورداعش کا مقابلہ کرنے کیلئےکافی حد تک دومضبوط ریاستیں وجود میں آجائیں گی جنہیں دوسرے ممالک کی مدد بھی حاصل ہوگی کیونکہ داعش سب کیلئے خطرہ ہے۔اس طرح پوری دنیا کی تائید سےداعش کے گر د گھیرا تنگ کرنے کی اس حکمت عملی سے داعش کے علاقوں کا مکمل محاصرہ کرکے اپنے اہداف حاصل کئے جا سکیں گے۔یہ جنگی حکمت عملی ‘‘پیوٹن کی پالیسی اور سیاسی سوچ کا تسلسل ہےجس کے تحت روس کی عسکری مہم کو سیاسی کامیابی سے ہمکنار کرنا مقصودہے۔’’
داعش سے نمٹنے کے حوالے سے ایسا لگتا ہے کہ پیوٹن اسلام کے پہلےدور کی تاریخ سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں۔ 38 ہجری( 659 عیسوی) میں اسلام کے منحرفین کا ایک ٹولہ جسے ‘‘خوارجی’’ کہا جاتا ہے’ بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان خونیں تصادم کے بعدبالکل داعش کی طرح ابھراتھا۔خلیفہ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کے خلاف نہروان کے مقام پر جنگ لڑی جس میں خوارجیوں کو شکست ہوئی ۔ بالکل اسی طرح روسی منصوبے کے تحت آج شام اور عراق ’ داعش کے مکمل خاتمے کی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔پیوٹن’ افغانستان کی صورت حال کا بھی صحیح ادراک رکھتے ہیں۔آج کابل جن حالات سے دوچار ہے وہ کافی حد تک 1956 ء میں پیش آنے والے سائیگان (Saigon)کے حالات سے مشابہت رکھتے ہیں’ غیر ملکی کابل چھوڑ کر جا چکے ہیں’ امریکی اور نیٹو فوجی’ ہوائی اڈوں اور دیگر مقامات کی جانب سفر کیلئے ہیلی کاپٹر استعمال کر رہے ہیں اور ہزاروں افغانی یورپ کی جانب ’ ایران و دیگر پڑوسی ممالک سے گزر کرہجرت کر رہے ہیں۔
پیوٹن جانتے ہیں کہ طالبان جنگ جیت چکے ہیں اور عنقریب وہی افغانستان کے حکمران ہوں گے’لہذا روس کیلئے ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ مضبوط روابط استوار کرے اور جہاں ضروری ہو ان کی مدد کرے ۔ شیرخان کی خشک بندرگاہ سے قندوز جانے والے فوجی اسلحہ و سازوسامان سے بھرے ٹرکوں کا قافلہ طالبان کے حوالے کیا جانا اسی مفاہمت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ روس اور وسطی ایشیائی ممالک کیلئے ان ہزاروں جہادیوں کی اپنے اپنے ممالک کوواپسی کا مسئلہ بڑی تشویش کا باعث ہے جو آج طالبان کے ہم قدم ہو کر جہاد میں شامل ہیں ۔ان جہادیوں کی اپنے ملکو ں کو واپسی طالبان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اسی طرح پاکستان کے 150,000 کے قریب قبائلی جو افغانستان میں مقیم ہیں ’ حکومت کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد انہیں وطن واپس لانے کا مسئلہ ہے۔ یہ فیصلہ مشکل ضرورہے لیکن اس سے نہ صرف پاک۔افغان سرحدپر امن قائم ہوجائے گا بلکہ افغانستان سے ملحقہ ممالک میں قیام امن کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
پیوٹن کہتے ہیں: ‘‘عالمی سیاست میں امن کو کبھی استحکام نہیں رہا۔ امن کوایک ایسی غلطی کانام بنا دیا گیاہے جس کا دوام انتہائی مشکل ہے۔ لہذا دیرپا امن کا قیام صرف جنگ کیلئے تیار رہنے سے ہی مشروط ہے۔’’ پیوٹن نے ماضی کی سردجنگ کےدور کو عالمی امن کے سنہری دور سے تشبیہ دیتے ہوئے سرد جنگ کے نئےدور کے آغاز کی نویدبھی سنائی جو ‘‘ذرا مختلف نوعیت’’ کا دور ہوگا۔ روس نے شام میں عسکری مداخلت سے ایک ماہ قبل ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کے ساتھ وسطی ایشیاء میں اپنی عسکری قوت کا مظاہر ہ کیا اورپھر مضبوط تجارتی و اقتصادی اقدامات سے سرد جنگ کے نئے دور کے ابھرنے کو حقیقت کا ایک نیارنگ دیا ہے۔یہ ‘نیا رنگ ’ اقتصادی تعاون ’تجارت اور معیشتی تدبیروں کا نام ہے۔روس شنگھائی تعاون آرگنائزیشن (SCO) کا اہم ممبر ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔بیلاروس کے وزیراعظم پاکستان کے دورےپر ہیں اور اہم تجارتی معاہدوں پر دستخط ہورہے ہیں۔ دو بلین ڈالر سے زائد لاگت کا ایران کی سرحد سے لاہور تک گیس پائپ لائن کی تعمیر کا منصوبہ روس’ چین’ پاکستان ’ایران اور افغانستان کے درمیان نئے اقتصادی زون (Economic Zone) کے قیام کے سلسلے میں نہایت اہم پیش رفت ہے۔ سعودی عرب سے تیل کےمعاہدے کا مطلب روس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہے اوراس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سردمہری کا احساس ہے ۔اس طرح روس اب مشرق وسطی میں دھماکہ خیز انداز سےداخل ہوچکا ہے۔
نئی سرد جنگ کےخدوخال پچھلی سردجنگ سے مختلف ہیں کیونکہ پچھلے دور میں امریکہ نے عسکری اتحادوں اور دنیا بھر میں عسکری ٹھکانے قائم کرکےمفادات حاصل کئے تھے اور عسکریت غالب رہی لیکن افغانستان اور عراق میں شکست کے بعد امریکہ نے اپنےتذویراتی مرکز(Strategic Pivot)کو اس خطے سے جنوب مشرق کی جانب منتقل کرکے’ اسٹریلیا’ برونائی’ کینیڈا’ چلی’ جاپان’ ملائیشیا’ میکسیکو’ نیوزی لینڈ’ پیرو’ سنگاپور اور ویتنام کے درمیان قائم ہونے والا بین البحری شراکتی (Trans-Pacific Partnership) معاہدہ (TPP)بنایا ہے’ جس کا مقصد چین کی اقتصادی ناکہ بندی (Economic Siege)کرنا ہے۔اسی طرح امریکہ’ بھارت کے ساتھ مل کربحرہند کے ساحلی ممالک کے مابین(Indian Ocean Rim Countries Partnership معاہدہ (IORCP)بنا رہا ہے۔چین نے اس کے جواب میں 16مجوزہ ممالک کے درمیان آزاد تجارتی شراکتی اتحاد قائم کیا ہے جسےRegional Comprehensive Economic Partnership (RCEP)کانام دیا گیا ہے۔‘‘اس طرح جغرافیائی و اقتصادی عالمی نظام کا نقشہ نئے ابھرتے ہوئےجغرافیائی و تذویراتی نظام کے خدوخال میں حقیقت کا رنگ بھر تا دکھائی دے رہا ہے جو پیوٹن کی پیش کردہ اس منطق کے عین مطابق ہےکہ:
‘‘امن اور پرامن زندگی ہمیشہ سے ہی انسانیت کی اولین خواہش رہی ہے لیکن عالمی سیاست میں امن کو کبھی استحکام نہیں رہاہے۔اس لئے ہم مستقبل میں دنیا کو تصادم سے دور رکھنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں اور امن کیلئے کمر بستہ ر ہتے ہوئے جنگ کیلئے بھی تیار ہیں۔”