اسلام آباد ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس
جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف’ پاکستان
Email: friendsfoundation@live.co.uk
چند ماہ قبل ڈاکٹر اکرام اعظم صاحب نے مجھے مرحوم وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کی کتاب
“Pakistan – The Heart of Asia”
یاددلائی’ جس میں مصنف نے خطے میں ہمہ گیراور پر امن بقائے باہمی کے حوالے سےمستقبل میں پاکستان کی جغرافیائی و تذویراتی اہمیت اور قریبی ہمسایہ و دیگر ممالک کے مابین روابط جوڑنے کی اہلیت کے بارے میں بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا تھا۔انہیں خیالوں کی عملی شکل ہمیں آج پاک چین اقتصادی راہداری’ ایرانی گیس پائپ لائن اور ترکمانستان۔ افغانستان۔ پاکستان ۔انڈیا۔ پائپ لائن(TAPI) کے منصوبوں کی صورت میں ’حقیقت کا رنگ بھرتی دکھائی دے رہی ہے’ جس سے پاکستان کے چار قریبی ہمسایہ ممالک کے مابین تذویراتی روابط قائم ہوں گے جودنیا کی چار عظیم ترین تہذیبں ہیں۔مثلا’ بھارتی اور ایرانی تہذیب’ وسطی ایشیاء اور چینی تہذیب ۔ پاکستان بذات خود دنیا کی قدیم ترین ‘سندھ تہذیب’ کا گہوارہ ہونے کے ناطے عالمی تہذیبوں کا گڑھ کہلانے کا مستحق ہے۔یہ ایک منفرد اعزاز ہے جو کسی اور ملک کو حاصل نہیں اور یہی بات اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ کرتی ہے اوراس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے تاریخی نوعیت کا کردار ادا کرنے کی متقاضی ہے۔
ہمارے خطے میں قیام امن کا دارومدار دو اہم معاملات کو سلجھانےپر موقوف ہے۔افغانستان اور کشمیر۔ لیکن حالیہ کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کوسردخانے میں ڈالتے ہوئے صرف افغانستان کے مسئلے کو زیر بحث لایا گیا ہے جسے اندرونی و بیرونی طاقتوں کی جانب سے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کی جانے والی ریشہ دوانیوں نے مزید الجھا دیا ہے۔امریکہ نے پاکستان’ بھارت اور افغانوں کو ترغیب دی کہ وہ امریکی مفادات کے پیش نظر مسئلہ افغانستان کو حل کرنے کی خاطر اسلام آباد میں مل بیٹھیں۔سربراہان مملکت مل کر بیٹھے لیکن ان کے چہروں پر دکھائی دینے والی مسکراہٹ مصنوعی نوعیت کی تھی۔انہوں نے امریکی منصوبے کی تائید کرتے ہوئےطالبان سےصدر اشرف غنی کے جمہوری آئین کے مطابق ان کے ساتھ اقتدار میں شراکت پر رضا مند ہونے کا مطالبہ کیا لیکن طالبان کی طرف سے ان شرائط کو توپہلے ہی رد کیا جا چکا ہے اور ملا منصور نے حالیہ دنوں میں جاری کئے جانے والے بیان میں واضح کردیا ہے کہ ‘‘ کسی کو ہمیں یہ بتانے کا حق حاصل نہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کس کیلئے کرنا ہے۔’’ طالبان نے آج سے دس سال قبل جو شرائط پیش کی تھیں وہ ان سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے ۔ان کا مطالبہ ہے کہ ‘‘قابض طاقتیں افغانستان سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکل جایئں اورہمیں موقع دیں کہ آزاد فضا میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ہم اسلامی قوانین کے تحت ایک اسلامی حکومت بنائیں گے جو ہماری روایات کے عین مطابق ہوگی۔’’
طالبان نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ‘‘ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس’’ کو کابل اور قندھار کے انتہائی سکیورٹی کے علاقوں میں دو خودکش حملے کر کے مسترد کر دیا ہے۔‘‘اب صورت حال زبوں حالی کا شکارہے اور مکمل طور پر طالبان کے ہاتھوں میں ہے’’ جوبہتر لڑاکا طاقت اورپیدل نقل و حرکت کے ماہر ہیں اور انہیں ایک وسیع علاقے پر کنٹرول حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود طالبان کے دھڑوںمیں اندرونی اختلافات ؛ کمزور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی وجہ سےمشرقی صوبوں میں داعش کے قدم جمانے کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔حالیہ سردیوں کے موسم میں توقع ہے کہ طالبان کی کاروائیوں سےحکومتی فوجوں کیلئے زمینی وسعت اور بھی تنگ ہوجائے گی جس سے ان کے مضبوط مراکز پر گرفت کمزورہوجائے گی۔اس معرکےکیلئے طالبان گولہ بارود سے بھری گاڑیاں’ خودکش بمبار اور سخت گیرلڑاکا فوجی استعمال کریں گے۔ اس کاروائی کا مقصد ‘‘حکومتی فوجوں کو تذویراتی طور پر محصور کرنا ہے۔’’ اس طرح 2016ءکا سال فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں شریک اقتدار رہنے والے لوگ اضطراری کیفیت میں مبتلا ہیں اورجوق در جوق یورپ اور دیگر ممالک کی طرف پناہ لینے کی غرض سے بھاگ رہے ہیں۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے یورپ ’ دبئی اور مشرق بعید میں عالی شان محلات تعمیر کر رکھے ہیں اور ان کے بڑے بڑے اکائونٹ بھی ہیں۔ایسے لوگوں نے تو جہاز کی ٹکٹیں بھی خرید رکھی ہیں کہ جونہی صورت حال ابتر ہو وہ بھاگ جائیں گے۔البتہ افغانستان میں قیام امن کا ایک قابل عمل راستہ بھی موجود ہے جس کی وضاحت بارہ سال قبل ملا عمر نے ‘‘جنگ سے اجتناب کے میرے مشورے’’ کے جواب میں کی تھی:
ا۔ہم نے اپنی آزادی کے حصول تک جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اورانشاء اللہ ہم فتحیاب ہوں گے۔
جب ہم آزادی حاصل کرلیں گے تو اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے ایسے فیصلے کریں گے جو
تمام افغانوں کیلئے قابل قبول ہوں گے’ اب ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔
ب۔اس بار ہم امریکہ اور پاکستان کے دھوکے میں نہیں آئیں گے جیسا انہوں نے 1989-90 میں روس
کی پسپائی کے بعد کیا تھا۔مستحکم اور پرامن افغانستان کی خاطرہم شمالی اتحاد کے ساتھ مل کر قیام امن
کی راہیں استوار کریں گے اور اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی اورتعاون پر مبنی تعلقات قائم
کریں گے۔
ج۔امریکی کی جنگ میں پاکستان ہمارے دشمنوں کا شراکت دار ہے لیکن اس کے باوجودہمارا دشمن نہیں
ہے۔ پاکستان ہمارے لئے بہت اہم ہے کیونکہ ہماری سلامتی کے تقاضےاور مفادات مشترک اور
ہماری منزل ایک ہے۔
د۔ہمیں مستقبل میں ایک سخت جدوجہد درپیش ہوگی لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اس سے بخیروخوبی عہدہ
برآہوں گے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: ‘‘بالآخر تمہارے دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔’’
طالبان اس پالیسی پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کی خاطر ہر مثبت قدم اٹھانے کیلئے تیار ہیں۔ 2012 میں پیرس میں منعقد ہونے والے انٹرا افغان ڈائیلاگ میں ایسے ہی اقدامات پر بحث کی گئی تھی جہاں طالبان’ شمالی اتحاد اور کرزئی کے حامی مل بیٹھے تھے اور اسلامی قوانین کے تحت اور افغان روایات کے مطابق ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کیلئے بنیادی اصولوں پر متفق ہو گئے تھے لیکن بدقسمتی سے بات چیت کا دور ختم کر دیا گیا جبکہ عرصہ دراز سے جاری خونیں تصادم کو روکنے کیلئے گفت و شنید ہی واحد راستہ ہے جس میں لاکھوں انسانی جانوں کے علاوہ بے تحاشہ تباہی ہو چکی ہے۔ اس طرح کا اقدام چین اور روس کے پیش کردہ نظریے سے بھی ہم آہنگ ہے جس میں ‘‘مستقبل کی دنیا کو تصادم سے پاک رکھنے اور پرامن زندگی کویقینی بنانے کیلئے’ نئے تذویراتی ماحول پر مبنی ایک نئے جغرافیائی و اقتصادی عالمی نظام کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں جہاں پاکستان کو عالمی اقتصادی نظام کے قلب کی حیثیت حاصل ہوگی۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور خطے کے ممالک کو چاہیے کہ انسانیت کی بھلائی کیلئے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ بالخصوص عالم اسلام جو گذشتہ چار دہائیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے’ سب سے زیادہ ظلم سہے ہیں اور سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔
جب تک مسئلہ کشمیر پر امن طور پر حل نہیں ہوجاتا بھارت کیلئے مواقع محدود رہیں گے ’ اس لئے کہ پاکستان کسی بھی صورت بھارت کو افغانستان اور اس سے آگے کے علاقوں میں جانے کا راستہ نہیں دےگا۔ اس کے علاوہ بھارت کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہئیے کہ جب دنیابھر سے آئے ہوئے جہادی افغانستان سے فارغ ہوں گے تو ان کا رخ کشمیر کی جانب ہوگا جیسا کہ 1990 میں یمن میں ہواتھا اور صدرعبداللہ صالح کو اس قابل بنا دیا کہ وہ یمن کےشمالی و جنوبی علاقوں میں جنگ جیتے اور شمالی و جنوبی یمن کو متحد کردیا۔ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کو سمجھ لینا چاہئیے کہ افغانستان کی جنگ آزادی خطے کے تمام ممالک پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ روس ’چیناور وسطی ایشیائی ممالک کیلئے ان ہزاروں جہادیوں کی اپنے اپنے ممالک کوواپسی کا مسئلہ بڑی تشویش کا باعث ہے جو آج طالبان کے ہم قدم ہو کر جہاد میں شامل ہیں ۔ان جہادیوں کی اپنے اپنےملکو ں کو واپسی طالبان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اسی طرح پاکستان کےہزاروں قبائلی جو افغانستان میں مقیم ہیں ’ جن کی تعداد صدر اشرف غنی کے اندازے کے مطابق تین سے چار لاکھ ہے’ حکومت کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے بعد انہیں وطن واپس لانے کا مسئلہ ہے۔ یہ فیصلہ مشکل ضرورہے لیکن اس سے نہ صرف پاک۔افغان سرحدپر امن قائم ہوجائے گا بلکہ افغانستان سے ملحقہ ممالک میں قیام امن کے حوالے سے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔