جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
Email: friendsfoundation@live.co.uk
امریکہ نے دعوی کیا ہے کہ ملا منصور کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیاہے۔ ہوسکتا ہے یہ درست ہو لیکن زمینی حقائق کی بنیاد پر بات کچھ اور ہی معلوم ہوتی ہے۔ یہ غلط ہے کہ امریکہ نے حملے سے پہلے پاکستان کے وزیراعظم اور آرمی چیف کو اطلاع دی تھی۔ پاکستان پرجھوٹا بہتان لگا کر امریکہ نے پاکستان کو بدنام اور افغانیوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ تباہ شدہ گاڑی سے ملنے والے پاسپورٹ کے مطابق ملا منصور 28 مارچ کوسرحد پار کر کے ایران گئے تھے اور 21 مئی کو واپس آرہے تھےتونوشکی کے نزدیک انہیں نشانہ بنایا گیا۔ تعجب کی بات ہے کہ ملا منصوراتنے طویل عرصہ تک ایران’ بحرین اور دبئی کے متعدددورےکرتے رہے جبکہ طالبان حالت جنگ میں ہیں۔کیا ایک کمانڈر اتنا عرصہ اپنی سپاہ سے دور رہ سکتا ہے?مزید حیرت اس بات پر ہے کہ ملا منصور بغیر کسی سکیورٹی کے اکیلے سفر کر رہے تھے۔ایران نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔ملا منصور ایران میں نہیں تھے اور نہ وہ ایران سے پاکستان آئے۔ اس جھوٹ کا مقصد ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کرنا ہے۔مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملا منصور کوئٹہ سے کراچی جا رہے تھے جہاں وہ 2011 ء سےکرائے کے مکان میں ٹھہرتے تھے۔ یعنی وہ ایک عام افغانی کی طرح سیروتفریح میں وقت گذارتے رہے ہیں۔یہ وہ سربستہ راز ہیں جن کی گتھلیاں سلجھانے میں وقت لگے گا لیکن مشکل یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد پاکستان کی سرزمین پر ملا منصور کا قتل امریکہ کے الزام کو تقویت دیتا ہے کہ پاکستان اب بھی طالبان کی پناہ گاہ ہے اس کے باوجود کہ ضرب عضب میں بے شمار قربانیاں دے کران کی پناہ گاہوں کو ختم کر دیا ہے لیکن امریکہ کو یقین نہیں ہے۔ جو دوسرا مسئلہ درپیش ہے وہ ملا منصور کی میت ہے’ جو ولی محمد کے نام سے ہماری تحویل میں ہے اس میت کو احترام کے ساتھ ہم طالبان کے حوالے کریں گے یا امریکیوں کی طرح سمندر برد کر دیں گے۔ہماری سفارتی تدبیر کیا ہے ’یا ایک اور ناکامی اور پشیمانی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔
پاکستان اور افغان قبائل کے درمیان صدیوں پرانے رشتے ہیں کہ جو جنرل مشرف کے 2001کے بدترین فیصلے کے باوجود پاکستان کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھتے ہیں۔ان مضبوط رشتوں کی بنیاد ہماری پختون آبادی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان یکجہتی اور ہمدردی کی مضبوط بنیاد ہے۔ امریکہ پاکستان کے خلاف ایسی سازشوں میں پہلے بھی ملوث رہا ہے۔مثلا پاکستانی طالبان کے ساتھ جب بھی مذاکرات کامیاب ہوئے طالبان لیڈر کو قتل کر دیا گیا۔ مولوی نیک محمد’ بیت اللہ محسود’ حکیم اللہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح ان سب کو ایک ایک کر کے قتل کیا ۔مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو قبائیلیوں کے خلاف خوفناک جنگ میں پھنسا دیا جائے اور اس مقصد میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔اگر ملا منصور واقعی ہلاک ہو گئے ہیں تو طالبان کی تنظیم اور ان کی جنگی کامیابیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا’ اس لئے کہ مصلحتا طالبان 4-5 ڈائون (4-5 Down) قیادت کا تعین کر چکے ہوتے ہیں اور مرکزی شوری تصدیق کرتی ہے’ مثلا ملا عمر کے بیٹے شمالی صوبوں کے کمانڈر ہیں اور نوجوان طالبان کے لیڈربھی ہیں۔ اسی طرح سراج الدین حقانی جنوبی صوبوں کے کمانڈر ہیں۔طالبان تنظیم کی مرکزی قوت وہ نوجوان جہادی ہیں جو اسی جنگ کے سایے میں پلے بڑھے ہیں اورہر بڑے فیصلے میں ان کی مرضی شامل ہوتی ہے۔
لہذا یہ بات طے شدہ ہے کہ قیادت کے مسئلے کوطالبان شوری سنبھال لے گی اور کوئی افراتفری نہیں ہوگی۔بالکل اسی طرح جیسے 1988 میں پاکستان کی عسکری قیادت ’یعنی تینوںسروسز کے سربراہوں نے جنرل ضیاء اور سینئر افسروں کی ہلاکت کے بعد انتقال اقتدار کا مسئلہ تین گھنٹوں کے اندر اندرحل کر لیا تھا اور انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہو چکا تھا۔اسی طرح طالبان جو بڑی طاقت ہیں کہ جن سے ٹکر لینے کا دنیا کی کسی طاقت میں حوصلہ نہیں ہے وہ اپنے معاملات کوقابو میں رکھیں گے اور کوئی خرابی پیدا نہیں ہوگی بلکہ طالبان کی عسکری کاروائیوں میں تیزی آئے گی۔ایک ایک کر کے وہ اہم مقامات کا گھیرائو کرتے جائیں گےاوراس سال کے آخر تک فیصلہ کن صورت حال پیدا ہو جائے گی۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ پچھلے سولہ سالوں کے عرصے میں افغانستان ’ امریکہ اور اتحادیوں کی بربریت کا شکار رہا ہے لیکن اس کے باوجود طالبان نے ایران’ چین’ روس اور پاکستان سے تعلقات مضبوط کئے ہیں۔پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بنیاد وہ خونی رشتہ ہے جو حالات کے اتار چڑھائو کے باوجود مستحکم ہے اور یہی بات امریکہ اور اتحادیوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے اور خودطالبان سے شکست کھانے کے باوجود پاکستان سے تقاضا کرتے ہیں کہ ‘‘حقانی نیٹ ورک ختم کرو۔ ’’ صدر اوبامہ نے کہا ہے ‘‘ملا منصور کی ہلاکت سےایک بہت بڑا خطرہ ٹل گیا ہے اور جہاں بھی خطرہ ہوگا ہم اسی طرح نپٹتے رہیں گے۔’’ انہیں معلوم نہیں کہ ملا منصور کے بعد جو بھی آئے گا وہ امریکہ کیلئے ایک اور بڑا خطرہ ہوگا۔ اور اس خطرے سے نمٹنے کیلئے امریکہ اسی طرح پاکستان کے اندرکاروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا اور ہماری حکومت احتجاج کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ کیا یہی ہمارا مقدر ہے?
افغانستان کےایران کے ساتھ تعلقات 2001 کے بعد مضبوط ہوئے کیونکہ افغانیوں کیلئے ایران کی سرحد کھلی رہی اور ہر طرح کی مدد و معاونت حاصل رہی ہے۔ پاکستان نے اگر بندشیں لگادیں تو ایران نے نرم کر دیں جو ایک قدرتی عمل تھا۔روس نے بھی تعلقات مضبوط کئے ہیں اس لئے کہ انہیں معلوم تھا کہ طالبان ہی کامیاب ہوں گے اور انہیں کی بدولت روسی باغیوں کو سنبھالنا ممکن ہوگا۔قندوز کی جنگ اور اس کے بعد روس سے جو امداد ملتی رہی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔چینی دوراندیش لوگ ہیں ’ انہیں بھی معلوم ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گی’ اس لئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور سفارتی تعلقات میں مضبوطی آئی ہے۔اس کے باوجود امریکہ’ پاکستان اور افغان حکومتیں یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ طالبان کو مذاکرات پرراضی کیا جاسکتا ہے اور اشرف غنی کی حکومت میں شمولیت پر مجبور کیا جا سکتا ہے جو ممکن نہیں ہے۔ افغانستان میں وہی کچھ ہوگا جو طالبان فیصلہ کریں گے۔ طالبان آج جس قدر متحد اور مضبوط ہیں اتنےپہلے کبھی نہ تھے۔
یہ بات یقینی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی سازشوں میں ناکام ہوں گے اور افغانستان کی فوج ‘‘خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرتی جائےگی۔’’ طالبان کے سامنے مخالفین کا کردار ویسا ہی ہوگا جیسا 1994 کے بعد طالبان کی یلغار کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر سکا تھا۔ ابھی اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ امریکی ڈرون حملے ہیں جس کے سبب طالبان کی کامیابی کو وقتی طورپر ٹالا(Delay) تو جا سکتا ہے لیکن اسے محدود کرنا ناممکن ہے۔پچھلی تین دہائیوں میں اسلامی دنیا میں بڑی تباہی آئی ہے جو ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کی سزا ہے لیکن اللہ نے ہمیں بڑی نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے خلاف بڑی بڑی کامیابیاں عطا کی ہیں۔ پہلے سوویٹ یونین پسپا ہوا اور اب امریکہ اور اس کے اتحادی ایسی شکست سے دوچار ہوئے ہیں جس نے انہیں بے بسی کی تصویر بنادیا ہے۔ آج افغانستان میں ایک مضبوط اسلامی حکومت کے قیام کے سامنے ہر مزاحمتی قوت ناکام ہے۔ ما شاء اللہ لاقوة اللہ باللہ۔
حرف آخر
امریکہ نے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو بڑے توہین آمیز انداز میں رد کر دیا ہے۔ پاکستانی فوج کی قربانیاں اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو بھی نظر اندازکردیا اور اعلان کیا ہے کہ مستقبل میں بھی امریکہ ایسی ضرب کاری لگاتا رہے گا۔بلاشبہ اب پاکستان کو بالکل نئی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔قومی وقار کے تحفظ کا یہی تقاضا ہے۔ اس حوالے سےچند فیصلے اہم ہیں:
· پاکستان QCGسے الگ ہو جائے ’ اس لئے کہ امریکہ نے پہلے ہی اسے ڈرون کر دیا ہے۔
· پاک افغان سرحد اور فضائی حدود کو مستحکم بنائیں تاکہ ان سرحدوں کو عبور کرنے کی کسی میں جرات نہ ہو۔
· ملا منصور کی میت کو پورے اعزاز کے ساتھ طالبان کے حوالے کر دیں۔ وہ ایک غیور اور خوددار قوم کی مزاحمتی قوت کا نشان ہیں۔
· امریکہ ’ اس کے اتحادی اور افغان حکومت کو طالبان سے نپٹنے دیں اور الگ رہ کر تماشا دیکھتے رہیں۔
· چین پاکستان تذویراتی محور (China Pakistan Strategic Pivot)کو مضبوطی سے تھامے رکھیں’ اس لئے کہ یہی ہماری سلامتی کا محور ہے۔