جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف
friendsfoundation@live.co.uk
تین سال قبل موجودہ حکومت نے ملکی اقتصادیات کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ‘‘قرض اورامداد’’ کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا جس سےبنیادی اہداف کے حصول میں تو حکومت کوجزوی طورپر کامیابی ملی لیکن ابتر اقتصادی صورت حال کو سنبھالنے کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات نے مالی معاملات کو مزیدبگاڑ دیا ہے’ جس کا اندازہ ملکی ماہرین اقتصادیات کے درج ذیل تبصروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
‘‘غیر ملکی امداداور قرضوں پر انحصار کرنے سے پاکستان کو آئی ایم ایف اور امریکہ کی جانب سے سخت
پابندیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لیکن اس کے باوجود غربت میں کمی واقع نہیں ہو سکی ہے؛ پالیسی کے
حوالے سے بجٹ امید افزا نہیں ہے اور مالی پالیسی بھی غیریقینی کا شکارہے جس سے نیابحران ابھرنے
کا امکان ہے ؛ معنوی اعتبار سے بجٹ کی اساس سیاسی ترجیحات ہیں جو روایتی طریقوں سے سال بہ سال
دہرائی جاتی رہی ہیں؛ یہ عمومی نوعیت کی رسمی کاروائی ہے جس کے سبب دولت اور غربت میں تفریق
مزید بڑھی ہے؛تعلیم اور صحت کے حوالے سےمعاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے قومی بجٹ ایک موثر
ہتھیار ہوتا ہےلیکن اس بجٹ میں بیس لاکھ کے قریب بے روزگار نوجوانوں اور قرض سے پاک
اقتصادیات کے حوالے سےکوئی قابل ذکرمنصوبہ بندی نہیں ہوئی ہے؛ بجٹ میں نہ توکوئی اصطلاحات
کی بات کی گئی ہے اور نہ ہی ٹیکس کے ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور وسعت دینےکا ذکر کیا گیا ہے؛ یہ امیروں
کاتیار کردہ بجٹ ہے جس میں امیروں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے
جاگیردارانہ نظام کوسہارا دینے کی کوشش کی گئی ہے؛ قومی پیداوار میں اضافے وترقی کےدعوے تو بہت
کئے گئےہیں لیکن اصل حقیقت ابتری کی آئینہ دار ہےکیونکہ زرعی شعبہ پیداواری ہدف پورا کرنے میں
ناکام رہا ہے جس کا ہماری قومی پیداوار میں 6 فیصد حصہ ہے’ اسی طرح برآمدات اور سرمایہ کاری میں بھی
کمی واقع ہوئی ہے اور تمام طے کردہ اہداف کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھناپڑا ہے؛البتہ غریب اراکین
پارلیمنٹ کیلئے یہ اچھا بجٹ ہے جس کی وجہ سے ان کی موجودہ ماہانہ آمدن 80,000 ہزار روپے سے بڑھ کر
470,000 روپے ماہانہ ہو گئی ہے۔مبارکاں’’
غیرملکی امداد’ قرضوں اور عطیات کی مرہون منت ہماری معاشرتی تبدیلی لانے کی حکمت عملی سے ملکی اقتصادیات پر خطرناک حد تک دباو بڑھا ہے۔اس صورت حال سے مجھے غالب کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہماری فاقہ مستی اب رنگ لاتی نظر آرہی ہے۔ آئیےبجٹ کا ایک معروضی جائزہ لیتے ہیں۔
بجٹ کا کل حجم 4400بلین روپے ہےجس میں سے 1800 بلین روپےقرض کی مد میں جائیں گے جو مجموعی بجٹ کا 41% ہے۔ اس طرح باقی صرف 2600 بلین روپے بچیں گےجس سے‘‘حکومتی ہنر مندوں نے امیر اور غریب طبقات کو برابر برابر فیضیاب کرنا ہے۔’’ ہمارے 30% لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی گذار رہے ہیں ؛ 40% اس خط سے اوپرہیں؛ 25% لوگ اوپری اور نچلی سطح کےدرمیانے طبقات(Upper and Lower Middle Class) سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ باقی5%خوشحال طبقہ ہے۔غربت مٹانے کیلئے بجٹ میں2.6% فیصد رقم مختص کی گئی ہے؛ تعلیم کیلئے1,8% فیصد؛ صحت کیلئے 0.27% فیصد’ اس طرح ملک کے 80%غیر مراعات یافتہ طبقے کیلئے بجٹ کا صرف 3.4% مختص کیا گیاہے جو حکومت کی غریب پروری کا بین ثبوت ہے۔زراعت کیلئے 700 بلین روپے رکھے گئے ہیں جو قومی بجٹ کا15.9% فیصد ہے لیکن اس رقم کا زیادہ حصہ بڑے بڑے بے نامی کھاتہ رکھنے والےجاگیردار اور وڈیرے لے جائیں گے جبکہ غریب کسانوں کیلئے تھوڑا ہی بچے گا۔
دفاع کیلئے 860 بلین رکھے گئے ہیں جو بجٹ کا 19.55 فیصد ہے اور مجموعی ملکی پیداوار (GDP)جس کا حجم (Rs. 32,700) ہے’ اس کا2.62% ہے’جو بھارت کے 4.70% دفاعی بجٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔قاعدہ تو یہی ہے کہ دفاع کا بجٹ مجموعی ملکی پیداوار کے2% سے 2.5% کے درمیان ہونا چاہیئے اور ہماری فوج نے ان حدود کے اندر رہتے ہوئے 650,000 سپاہیوں پر مشتمل بری فوج کو کم ترین لاگت سے بہترین لڑاکا فوج بنایا ہے۔ ایک سپاہی پر ہماری ایک سال کی لاگت0.8 ملین روپے ہے ؛ بھارت کی 1.7 ملین’ سعودی عرب کی 2.7 ملین’ ترکی کی3.0 ملین اور امریکہ کی 42.5 ملین ہےلیکن اس کے باوجود پاکستانی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے جواپنے خون سےقوم کے قرض کی ادائیگی کر رہی ہے جس کی کارکردگی عظمتوں کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے جس کا پوری دنیا اعتراف کرتی ہے ۔ہماری مسلح افواج اپنی اہلیت اورکارکردگی کی بنیاد پر مزاحمت کا مطلوبہ معیار(Deterrence) برقرار رکھے ہوئے ہے کیونکہ ان کی حکمت عملی تعلیم و تربیت اعلی (Knowledge based) پر مبنی ہے جس کی بنا پر وہ مدمقابل فوج کے خلاف جنگ جیتنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔اس صلاحیت کا تجزیہ میں نے اپنے مضمون بعنوان‘‘China Pakistan Strategic Pivot “ میں کیا ہے’ جوچند ہفتے قبل شائع ہواہے ۔
اس سال کا بجٹ ہمارے ایٹمی پروگرام کیلئے بہت گراں ثابت ہوا ہے کیونکہ اس کیلئے صرف 27 بلین روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 2014ء میں یہ رقم 54 بلین روپے تھی اوربھارت نے اپنے ایٹمی پروگرام کیلئے۱یک ہزار بلین (ایک ٹریلین) روپے رکھے ہیں۔پاکستان نے ایٹمی مزاحمتی قوت کے نظام میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ ایٹمی سائنس اور ٹیکنالوجی کا اعلی معیار ہے جو منفرد نوعیت کا ہے۔اس کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے رفقاء کے سر ہے جنہوں نے انتھک محنت سے ایک عظیم قومی فریضہ سرانجام دیا ہے۔یہ کامیابی ملی جذبے اور لازوال قربانیوں کی داستان ہے جسے غیر متزلزل سیاسی تعاون بھی حاصل رہا ہے۔اس کامیابی کا ذکر میں نے اپنے فروری 2016 میں شائع ہونے والے مضمون”Our Full Spectrum Nuclear Deterrence” میں تفصیل سےکیا ہے۔
ہماری مسلح افواج کی کامیابیاں اور ایٹمی مزاحمتی صلاحیت دو الگ الگ بڑی کامیابیوں کی کہانی ہے جو ہمارے اقتصادی منصوبہ سازوں سے تعلیم و تربیت اور فنی بنیادوں پراقتصادیات کی مضبوط بنیاد ڈالنے کا تقاضا کرتے ہیں ‘‘تاکہ اس سے پہلے کہ ہماری مالی پالیسی قرضوں کی گرفت سے آزاد ہو’ ہمیں اپنی خامیوں کا تدارک کرلینا چاہیئے کیونکہ مالی پالیسی کی ناکامی سے نیا فتنہ جنم لے گا جو ہرطرح سے خطرناک ہوگا۔’’