جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
(تھنکرز فورم پاکستان کے سیمینار میں پیش کیاگیا مقالہ)
تاریخی اور جغرافیائی واقعات کے مطالعہ سے ہمیں بڑے اہم حقائق سے آگہی ہوتی ہےجو سچ پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے آج ہم پاکستان او رافغانستان کے تعلقات کا جائزہ لیں گے۔ مملکت افغانستان 1747ء میں احمد شاہ ابدالی نے قائم کی جبکہ پاکستان پورے دو سو سال بعد’1947ء میں معرض وجود میں آیا۔افغان قوم فطرتی لحاظ سے سخت جان ’ دین سے لگن اور اپنے اصولوں اور روایات پر سختی سے کاربند ہے۔بالفاظ دیگر اپنے نظریہ حیات پرمکمل طور پر عمل پیرا ہے اور اس کے تحفظ کی خاطر بے مثال قربانیاں دی ہیں اور دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کوشکست دی ہے۔1989ء میں اس وقت کی سپر پاور’ سوویٹ یونین کو شکست سے دوچار کیا اور 2010ء میں دنیا کی اکلوتی سپر پاور امریکہ اور نیٹو افواج کو شکست دی۔ روس نے شکست تسلیم کر لی اور افغانستان سے نکل گیا لیکن امریکہ میں اپنی شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ اور ظرف نہیں ہے۔سازشیں کر رہا ہے’ایسی خطرناک سازشیں کہ جن سے تحفظ کی چارہ جوئی لازم ہے۔
ء میں‘‘جنگ سے اجتناب کے میرے مشورے’’ کے جواب میں ملا عمر نے کہا تھا2003:
‘‘ہم اپنی آزادی کے حصول تک جنگ جاری رکھیں گے اورانشاء اللہ ہم فتحیاب ہوں گے۔امریکی ایجنڈے پر عمل کرنا ہماری قومی غیرت کے منافی ہے اور ہماری قدریں اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ جب ہم آزادی حاصل کرلیں گے تو اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے ایسے فیصلے کریں گے جو ہماری قوم کیلئے قابل قبول ہوں گے’ اب ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے’ امریکہ اور پاکستان کے دھوکے میں نہیں آئیں گے جیسا انہوں نے 1989-90 میں روس کی پسپائی کے بعد کیا تھا۔مستحکم اور پرامن افغانستان کی خاطر اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی اورتعاون پر مبنی تعلقات قائم کریں گے۔امریکہ کی جنگ میں پاکستان ہمارے دشمنوں کا شراکت دار رہاہے لیکن اس کے باوجودہم اسے اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔ پاکستان ہمارے لئے بہت اہم ہے کیونکہ ہماری سلامتی کے تقاضےاور مفادات مشترک اور ہماری منزل ایک ہے۔ہمیں مستقبل میں ایک سخت جدوجہد کا سامنا ہے لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اس سے بخیروخوبی عہدہ براءہوں گے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: ‘‘بالآخر تمہارے دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔’’ افغان قوم کا یہ مثالی کردار و عمل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک مضبوط قوم ہیں جو اپنے نظریہ حیات کو تحفظ دینے میں کامیاب ہیں۔
اس کے برعکس ہم پاکستانی ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے ہیں۔1971ء میں اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے۔پچھلی چھ دہائیوں سے ہم اپنے آپ سے حالت جنگ میں ہیں۔ 1958ء سے اب تک سوات’ دیر’ باجوڑ’ وزیرستان ’ فاٹا اور بلوچستان میں گیارہ فوجی آپریشن ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے ساڑھے تین لاکھ قبائل افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور سات لاکھ کے قریب اندرون ملک پناہ گزین (IDPs)ہیں۔افغانستان اور دوسری دشمن تنظیمیں ہمارے پناہ گزین پاکستانیوں اورکالعدم تنظیموں کو استعمال کر کے دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ہماری فوج 1958ء سے لے کر اب تک ان علاقوں میں موجود ہے جہاں ان کا کنٹرول ہے’ یعنی ملک کے تقریبا چالیس فیصد علاقے پر فوج کی حکمرانی ہے جو جمہوری حکومت کے چہرےپر بد نما داغ ہے۔ہم نے اپنے قومی نظریہ حیات پر سمجھوتا کررکھا ہے جو ہمارا المیہ ہے۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیں آئین دیا جس میں جلی حروف میں لکھا ہوا ہے کہ ‘‘پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہوگا جس کی بنادیں قرآن و سنہ کے اصولوں پر مبنی ہوں گی۔’’جبکہ ہم نے جمہوریت کو توگلے لگا لیا لیکن قرآن و سنہ کو فراموش کر دیا ہےجس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ پاکستانی قوم کو آج شدید نظریاتی تصادم کا سامنا ہے۔
1989 ءمیں جب مجاہدین نے روس کو شکست دی تو امریکہ نے مجاہدین سےمنہ موڑ لیا’ جوفاتح تھے اور بجائے اس کے کہ انہیں شریک اقتدار کیاجاتا الٹا انہیں دہشت گرد قرار دیا۔چونکہ پاکستان کی کوئی افغان پالیسی ہی نہیں تھی اسلئےہم اپنے آقا کی ڈگر پرچل پڑے’ مجاہدین سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے ’ یہاں تک کہ 2001ء میں سانحہ نائن الیون کے انتقام میں اندھا ہوکر امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو ایک بد ترین فیصلہ تھا۔اور اس وقت سے اب تک ہم امریکی ایجنڈے کی پیروی کر رہے ہیں اور بھگت رہے ہیں۔
افغانستان کی حکومت کوکمزور نیشنل آرمی جیسے مسائل درپیش ہیں جو طالبان کے مقابلے میں ” خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑ رہی ہے۔” جبکہ افغان سرزمین پر موجودامریکہ کے دس ہزار کے لگ بھگ فوجی سازشی کاروائیوں میں مصروف ہیں اور ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں جو داعش کے ابھرنے کا سبب ہیں۔ اس امر کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ صرف طالبان ہی وہ قوت ہیں جو داعش کو ختم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن امریکہ نے انہیں دبا رکھا ہے۔افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے روس مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور آئندہ ماہ ماسکو میں بارہ ممالک کی کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے جس میں امریکہ نے شرکت کرنے سے انکارکر دیا ہے البتہ طالبان اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ دوسری جانب پاکستان نے موقع ضائع کر دیا ہے کیونکہ ہم خود قائد اعظم محمد علی جناح کے قائم کردہ حفاظتی حصار کواپنے ہی ہاتھوں سے توڑ چکے ہیں جس کے نتیجے میں ہمیں دونوں محاذوں پر جنگ کا سامنا ہے اور سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہےجو ہمارے کنٹرول سے باہرہے۔
2004 ء میں راولپنڈی میں جنرل مشرف پرقاتلانہ حملہ ہوا توامریکہ نے مشرف کو باور کرایا کہ اس ‘‘دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ وزیرستان میں ہے’’ تو بغیر کچھ سوچے سمجھےمشرف نے قبائل کے خلاف لشکر کشی شروع کر دی اور یہی امریکہ کی خواہش تھی کیونکہ امریکہ نے پاکستانی قوم کے نظریہ حیات کو تبدیل کرنے کیلئے بھاری رقوم فراہم کی تھیں جس کے سبب آج پاکستانی قوم کے اندر شدید نظریاتی تصادم کی کیفیت ہے جو انتہائی خطرناک ہے جو ہمیں انڈونیشیا میں 1965-66میں پیدا ہونے والی صورت حال سے دوچار کر سکتی ہے لیکن یہ حقیقت یاد رہے کہ پاکستان کو ئی جزیرہ نہیں ہے۔اس کی ایک جانب انقلابی افغانستان ہے تو دوسری جانب انقلابی ایران ہے اور ملک میں موجود دینی جماعتیں بھی اس چپقلش میں شامل ہوگئیں تو ایسا تصادم برپا ہوگاجس سےپاکستان کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ان معاملات کو درست کرنا ہمارے اختیار میں ہے لیکن ابھی تک کوئ بھی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس صورت حال کے پیش نظرپاکستان کی کیا حکمت عملی ہونی چاہئیے۔اس حوالے سے ہمیں چندبنیادی باتوں کا خیال رکھنا ہوگا:
- امریکہ کی مخالفت کے باوجود روسی اقدامات کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ طالبان کو روس پر اعتماد ہے جبکہ ایران اور چین بھی روسی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے’ اس لئے کہ صرف طالبان ہی وہ قوت ہیں جو داعش کو ختم کرکے امن قائم کر سکتے ہیں۔ جس طرح روس نےامریکہ کو شام میں ندامت اٹھانے سے بچایا’ اسی طرح وہ اسے افغانستان سے نکلنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
- پاکستان کو قائد اعظم کے نظریے کی جانب لوٹنا ہوگا کیونکہ ساٹھ فیصد پختون آبادی پاکستان میں اور چالیس فیصد افغانستان میں ہے جو طاقت کا ایک نیا محور ہیں اور انہوں نے ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ایک مضبوط قوم کو ایک لکیر کھینچ کر اور باڑ لگا کر تقسیم کرنا ناممکن ہے۔پختون اکثریت کی سوچ و فکر کا ادراک ضروری ہے۔
- پاکستان کو قبائل اور کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنانی چاہئیے کیونکہ اصل معاملہ سیاسی’ سماجی اور اخلاقی ہے جسے عسکری طاقت سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے قبائل کے احتجاج کا طریقہ ہی یہ ہے کہ وہ بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں جبکہ پنجاب ’ سندھ اور دیگر جگہوں میں عوام سڑکیں بلاک کر کے احتجاج کرتے ہیں تو ان کے ساتھ بات چیت کی جاتی ہے۔ اسی طرح قبائل کو بھی بات چیت سے قائل کیا جا سکتاہے۔یہ سراسر سماجی انصاف کا معاملہ ہے۔
- افغانستان کے متحارب دھڑوں کے مابین بات چیت کا عمل روس کی کاوشوں سے ممکن ہے جس کے بعد غیر ملکی فوجیں وہاں سے نکل جائیں گی۔ اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کو اپنے پناہ گزین قبائل کی وطن واپسی کیلئے عام معافی کا اعلان کرنا ضروری ہوگا۔
- افغانیوں کو اپنی مرضی سے ‘‘اسلامی امارت افغانستان’’ قائم کرنے کی اجازت لازم ہے۔ یہی وہ رکاوٹ ہے جس کے سبب 1990ء میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا اور اب امریکہ اپنی شکست کے بعد2010ء سے رکاوٹ بنا ہوا ہے اور امن کی راہ میں حائل ہے۔
- امریکہ اس وقت افغانستان کے معاملات سے لاتعلقی اور تھکاوٹ کا اظہار کر رہا ہے جو غلط ہے۔ حالات کا تقاضا ہےکہ ان مذاکرات میں بھرپور شرکت کرکے مسئلے کا حل تلاش کرے اور افغانستان کی تعمیر نو کا اہتمام کرے جو اس کی ذمہ داری ہے۔
امریکہ اس وقت بھارت کا سب سے بڑا دفاعی شراکت دار ہے اور اسے اعلی حربی سازوسامان فراہم کر رہا ہے’ جیسا کہ وہ اسرائیل’ برطانیہ اور اسٹریلیا کو مہیا کرتا رہا ہے۔ اس کاروائی کا مقصد بھارت کو خطے میں برتری دلانا ہے جس طرح اسرائیل کو فلسطینوں اور مشرق وسطی کے تمام ممالک کے خلاف برتری دلائی ہے۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس سے بھارت ’پاکستان کے خلاف سائبر جنگ لڑنے کے قابل ہو جائے گا۔امریکہ نے2009ء میں سائبر کمانڈ قائم کی اور بھارت نے 2014ء میں جبکہ پاکستان اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے۔
اس ساری صورت حال میں جو نیا عالمی نظام ابھررہا ہے اس کے خدوخال سمجھنے کیلئے دنیا کی بڑی طاقتوں کے سربراہوں کے مندرجہ ذیل اقوال کو سمجھنا اور ان پر غور کرنا ضروری ہے’ اس لئے کہ افغانستان’ پاکستان اور ایران دنیا کی ان بڑی طاقتوں کے مفادات کے ٹکراو کا محوربنتے دکھائی دے رہے ہیں:
- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں ‘‘امریکہ کو عظیم تر بنانے کی خاطر ہمیں اپنی عسکری قوت کو عالمی سطح پرناقابل تسخیر بنانا ہوگا۔’’ یعنی وہ اب بھی اسی خواب میں مبتلا ہے جو انہوں نے جنگ عظیم دوئم کے بعد دیکھا تھا اور اپنی عسکری و اقتصادی قوت پر انحصار کر کے دنیا بھر میں سات سو سے زائد عسکری اڈے قائم کئے اور اپنی برتری قائم رکھی لیکن اب یہ خیال فرسودہ ہو چکا ہے کیونکہ روش بدل چکی ہے اور عالمی نظام کے نئے نئے مراکز کے درمیاں ایک نیا نظام جنم پا رہا ہے جو روس اور چین کی نئی سوچ سے عبارت ہے۔
- روسی صدر پیوٹن کا کہنا ہے ‘‘ہم مستقبل میں تصادم کی منطق کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے جنگ کی تیاری کے ساتھ ساتھ امن کی جانب روبہ عمل ہیں ۔’’
- چین کے صدر زی جن پنگ کے بقول ‘‘ہم معاشرے کی مشترکہ منزل کوجدید ترقیاتی منصوبوں اور باہمی روابط کی ترقی کے ذریعے مضبوط بناسکتے ہیں۔’’ یہی سوچ و فکرنئے عالمی نظام کی پہچان ہے جس کی پذیرائی پوری دنیا کررہی ہے۔نئے نئے راستے کھل رہے ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس تبدیلی کا مرکز پاکستان’ ایران اور افغانستان ہیں جہاں قوموں کے درمیان تعاون و ترقی کی ایک نئی صبح طلوع ہو رہی ہے جس کی روشنی کراچی’ گوادر’ بندر خمینی اور چاہ بہار کی گزرگاہوں سے آگے افروایشین(Afro-Asian) سمندر کی وسعتوں تک پھیل جائے گی۔ یہی ان تین ملکوں کی وہ تذویراتی گہرائی ہے جس کا خواب ہم نے 1988 ء میں دیکھا تھا۔اس خواب کو حقیقت بنانے کا وقت آگیا ہے۔