جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
Email: friendscolumn@hotmail.com
آج کے ایک اردو اخبار کی مندجہ ذیل خبر آپ کے پیش نظر ہے جس کی افادیت14 اپریل 2017ء کو ماسکو میں ہونے والی بارہ ملکی کانفرنس میں ثابت ہوگی اور ہمارا موقف درست ثابت ہوگا کہ طالبان ہی وہ واحدقوت ہیں جو افغانستان میں امن کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
‘‘افغان طالبان اور روس کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ طے پا گیاہے۔جبکہ اس دس نکاتی معاہدے پر دستخط کے انکشاف کے بعد کابل حکومت اور اس کے سرپرستوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس معاہدے کی تیاری اور بات چیت میں شامل رہنے والے طالبان کے ایک رہنما نے ہمارے ذرائع کو بتایا کہ ملا منصور کو نشانہ بنانے کی ایک بڑی وجہ افغان طالبان اور روس کے درمیان باہمی تعاون کے معاہدے پر جاری بات چیت تھی۔ روس عالمی سیاست میں متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس حوالے سے ایران نے بھر پور مدد کی۔ ستمبر 2015ء میں ایران کی سمندری حدود میں ہی پیوٹن اور ملا اختر منصور کی ملاقات کرائی گئ تھی۔ ان ذرائع کے مطابق ملا اخترمنصور کو پوری دنیا میں سفر کرنے کی اجازت امریکہ کی جانب سے دی گئی تھی’ تاہم امریکا نے انہیں نشانہ بنا کراپنے وعدے کی خلاف ورزی کی جس پر افغان طالبان مذاکرات سے علیحدہ ہو گئے۔ ملا اختر منصورکی شہادت کے بعد امریکہ کا خیال تھا کہ اس معاہدے پر بات چیت ختم ہو جائے گی۔ تاہم اب معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ طالبان کے ایک اہم رہنما جو افغان جہاد میں روسی قیدیوں پر مامور تھے اور جنہیں روسی زبان پر عبور حاصل ہے’ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دس نکاتی معاہدے کے مطابق:
‘‘اول’روس افغان طالبان کو تسلیم کر لے گا۔ دوم ’ مذاکرات کے بعد افغان طالبان کی حکومت بننے کی صورت میں روس کی جانب سے فوجی اور مالی امداد دی جائے گی۔ سوم’ افغان طالبان وسطی ایشیا اور روس میں افیون اور ہیروئن روکنے کے ساتھ ساتھ چیچن’ ایغور اور حزب التحریر کے جنگجووں کو افغانستان میں ٹریننگ کی اجازت نہیں دیں گے بلکہ ان کے خلاف کاروائی کریں گے۔ چہارم’ روس کو مطلوب افراد گرفتار کر کے ماسکو کے حوالے کئے جائیں گے۔ پنجم’ روس افغان طالبان کے رہنماوں کے نام بلیک لسٹ سے نکالنے کی مخالفت نہیں کرے گا اور نہ ہی چین مخالفت کرے گا بلکہ چین اور روس’ فرانس اور برطانیہ کو بھی اس سلسلے میں آمادہ کریں گے۔ ششم’ افغان طالبان کے موجودہ امیر کو مکمل سکیورٹی آلات فراہم کئے جائیں گے۔ ہفتم’ افغان طالبان روسی فرم ‘گیسز پرم’ کی مرکزی پائپ لائن جو ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہو گی’ کو قندھار کے راستے بھارت’ بنگلہ دیش ’ چین’ پاکستان تک نہ صرف رسائی دیں گے بلکہ اس کی سکیورٹی کے بھی ذمہ دار ہوں گے۔ روس اس کے بدلے طالبان کو مالی امداد فراہم کرے گا۔ ہشتم’ وسطی ایشیائی ریاستوں میں جہادی تحریکیوں کو افغان طالبان کوئی مدد فراہم نہیں کریں گے۔ نہم’ افغان طالبان افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد ایران کے خلاف بھی کاروائی نہیں کریں گے۔
‘‘ دہم’اس معاہدے کا سب سے اہم نکتہ ہے کہ داعش کے خلاف افغان طالبان ’ روس’ چین اور پاکستان کے اتحاد کا حصہ بنیں گے اور اس میں طالبان کا اہم کردار ہوگا۔ افغاں طالبان نہ صرف اس حوالے سے مدد فراہم کریں گے بلکہ وہ خفیہ آپریشنز کیلئے تمام سہولیات بھی فراہم کریں گے۔ جبکہ ان افراد کی فہرستیں بھی فراہم کریں گے جو طالبان سے تعلق نہیں رکھتے۔ افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ روس بہت پہلے سے اس طرح کے معاہدے کیلئے کوشاں تھا۔ تاہم امریکی سازشوں کے سبب کامیابی نہ مل سکی۔ ذرائع کے بقول اب روس چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے۔
‘‘ اس حوالے سے چودہ اپریل کو ہونے والی کانفرنس کے بعد مزید پیش رفت کا امکان ہے۔ اور یہ کہ روس افغان طالبان کے ساتھ سفارتی معاہدہ بھی کر سکتاہے۔ افغان طالبان کو سفارتی حیثیت دینے پر روس نے اپنے اتحادیوں سے صلاح مشورے شروع کر دیے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ذرائع کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات میں بھی مذاکرات ہوئے اور ایران میں بھی اس پر بات چیت جاری رہی۔ ان مذاکرات میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افغان طالبان کے ایک اہم کمانڈر اور ہرات میں افغان طالبان کی شوری کے دو ارکان بھی شامل رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شمالی اور مغربی افغانستان سے ایسے افراد جن کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں’ ان کے ذریعے یہ مذاکرات کامیاب ہوئے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ اورکابل حکومت میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر خطے کے ممالک نے افغان طالبان کو ایک فریق کے طور پر تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم کر لئے تو اس سے افغان طالبان مزید مضبوط ’ جبکہ اشرف غنی کی اتحادی حکومت مزید انتشار کا شکار ہو جائے گی۔’’