جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
Email: friendscolumn@hotmail.com
سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد دنیائے اسلام سخت عتاب سے گذر رہی ہے جس کے سبب افغانستان، عراق، شام،لیبیا، صومالیہ اور یمن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ملک شام اس کی بدترین مثال ہے’ جہاں سازشوں کے اندر سازشیں ہو رہی ہیں۔ شیعہ سنی تفرقات کواتنا بڑھایاگیاہے کہ شیعہ سنی ممالک آج ایک دوسرے سے حالت جنگ میں ہیں۔ اسرائیل اور بھارت جیسے اسلام دشمن ملکوں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے جس کے سبب فلسطین اور کشمیر ظلم کی آگ میں جل رہے ہیں مگر عالمی ضمیر خاموش ہے۔ جمہوریت کے نام پر مصر میں اخوان کی حکومت کی جگہ فوجی ڈکٹیٹر کو حکمران بنا دیا گیا ہے کیونکہ انہیں پولیٹیکل اسلام بھی قبول نہیں ہے۔ آج پاکستان میں سارا افساد یہی ہے اور ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ہمارے حکمران اتنے مجبور ہیں کہ ملکی مفادات کو اپنے آقا کی خوشنودی کے بھینٹ چڑھا دیا ہے۔اس غفلت کے سبب ہمارا دشمن ہمارے خلاف اپنی سازشوں میں کامیاب ہے۔ سب سے خطرناک سازش یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے ذہن کو ایک حد تک تبدیل کردیا گیا ہے۔ وہ دین اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اپنی شناخت کھو رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی طرح پاکستانی قوم کی ذہنی سمت کو تبدیل کرنے کی سازش’ امریکہ نے2008ء میں شروع کی اور اس عرصے میں پاکستانی قوم کا ذہن بڑی حد تک تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اکثریت اب روشن خیال ’ لبرل اور سیکولر ہے۔ اب پاکستانی قوم اسی نظر سے افغانستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین اور طالبان کو دیکھتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان کے لبرل اور سیکولرعناصر کے دشمن ہیں۔ ہماری حکومت اور افغان طالبان کے درمیان یہی نظریاتی تصادم ہے جبکہ آج سے 30 سال پہلے افغان اور پاکستانی قوم ایک ہی نظریے کی حامل تھیں۔ یہ ہمارے دشمنوں کی کامیابی ہے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر سے پاکستانی قوم کے ذہن کا رخ تبدیل کر دیاگیاہے۔ یہ خطیر رقم ہمارے قومی اداروں پر خرچ کی گئی اور پاکستانیوں کا ذہن اسلام سے سیکولرازم کی طرف موڑاگیا ہے۔ نتیجتا آج ہم اس منزل کی طرف سفر نہیں کر رہے جس کا تعین ہمارے آئین میں کیا گیا ہے کہ ‘‘پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا جس کی بنیادیں قرآن و سنہ کہ اصولوں پر قائم ہوں گی۔’’ صرف جمہوریت کی پاسداری ہے’قرآن کا احترام ہے نہ سنت کا’ جس کے نتیجے میں آج بچوں کی زندگی کا مقصد بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔
پرویز مشرف نے 2008ء میں جو انتخابات کرائے تھے اس پر صدر بش نےان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشرف کو معلوم ہے کہ کس طرح پہلی مرتبہ پاکستان میں جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوگا اور جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو شور مچ گیا ۔ امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز نے لکھا کہ” آج امریکہ کے پالیسی ساز ماتم کررہے ہوں گے کہ پاکستان میں یہ کیا ہو گیا ہےکہ سب سے بڑے صوبے میں نواز شریف کی جماعت سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے ۔وہ جنرل اسلم بیگ اور حمید گل کے ہمنوا ہیں جو امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔” نواز شریف سے امریکہ کو یہی تکلیف ہے جوان کے خلاف ایک تحریک کی شکل میں جاری ہے۔ کیا آپ غور نہیں کرتے کہ احتجاج صرف پنجاب کےخلاف کیوں ہے? اور چند سال پہلے جب مرکز میں پیپلز پارٹی اور سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحد میں سیکولر حکومتیں تھیں’تو پھر بھی اپوزیشن کا رخ پنجاب کی طرف تھا۔اصل مقصد یہ ہےکہ نواز شریف مخالف تحریک اگر جمہوری طریقے سے چلے تو یہی لوگ دوبارہ کامیاب ہو جائیں گے اور اگرغیر جمہوری طریقے سے تبدیلی ہوگی تو پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرز کی سیکولر حکومت قائم ہو گی۔
دنیائے اسلام کے خلاف اس بڑی سازش کے تحت شیعہ سنی اختلاف کو اس حد تک بڑھا دیا گیا ہے کہ متعدد مسلم ممالک تباہ ہو چکے ہیں اور آپس میں حالت جنگ میں ہیں’ مثلا 1990 ءمیں افغان مجاہدین کی کامیاب تحریک کو دبا دیا گیا تاکہ وہاں سنی حکومت قائم نہ ہو سکے ’ 2011ء میں بحرین میں تحریک کو دبا دیا گیا تاکہ وہاں شیعہ اکثریت کی حکومت نہ بن سکے۔2014ء میں شام میں تحریک کو سبوتاژ کرکے ملک کو تباہ کر دیا گیا ہے تاکہ وہاں سنی حکومت قائم نہ ہو سکے۔عراق میں مخلوط حکومت بننے نہیں دی گئی تاکہ وہاں شیعہ اکثریت کی حکومت نہ بن پائے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔اور اب اسی سازش کے تحت افغان طالبان کو سنی حکومت بنانے کا اختیار دینا قبول نہیں ہے۔ سازشیں جاری ہیں۔ہمیں پوری طرح تیار رہنے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد بڑھانے کافیصلہ کیا ہے جس کے سبب پاکستان کی سلامتی کوخطرات بڑھیں گے لیکن ان خطرات کے خلاف روس’ چین اور ایران کا اتحاد کافی ہے۔ اس لئے کہ جس طرح 1987 ء میں امریکہ نے جہادیوں کو اسٹنگر میزائل دئیے تو جنگ کا رخ بدل گیا اور روسی پسپا ہوئے’ اسی طرح طالبان کو بھی جس دن ایسے ہی میزائل مل گئے تو امریکہ کی فضائی برتری ختم ہو جائے گی اور جنگ کا رخ بدل جائے گا۔مکافات عمل کا تقاضا یہی ہے اور اب امریکی سازش کے تحت چالیس سنی ممالک کا عسکری اتحاد بھی بن چکا ہے جس کے سبب افغانستان اور ایران کے ساتھ ہماری سرحدیں گرم ہیں ۔
سعودی عرب میں عرب اور مسلم ممالک کی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں امریکی صدربھی شرکت فرماہیں۔انہوں نے آشیر باد دی ہے اورحرمین شریفین اور سنی حکومتوں کو تحفظ و تعاون کی ضمانت بھی دی ہے۔اس کام کیلئے سعودی عرب سے 110 بلین ڈالر کا دفاعی معاہدہ بھی ہوا ہے اور اس معاہدے کوسازش سے منسلک کر دیا گیا ہے جو ایران کے خلاف1979 ء سے جاری ہے۔در اصل یہ معاہدہ 1945ء معاہدے کی تصدیق کرتا ہے جو شاہ عبدالعزیز اور صدر روزویلٹ کے درمیان ہو اتھا۔ اس معاہدے کے تحت سعودی حکومت نے غیر اعلانیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور تیل کی ترسیل کی تمام ذمہ داری امریکہ کو دے دی تھی جس کے بدلے میں امریکہ نے سعودی تخت و تاج کے تحفظ کی ذمہ داری لی تھی۔ صدر ٹرمپ نے ایران کو سنی ملکوں کے لئے بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا ہے اور اپیل کی ہے کہ یہ ممالک متحد ہوکر اس خطرے کا مقابلہ کریں ۔ اس ہرزہ سرائی پر ہماری حکومت اور سیاست دان خاموش ہیں جو بڑی افسوسناک بات ہے لیکن پاکستانی قوم نے اس سازش کورد کر دیا ہے کیونکہ دشمن کی تمام تر کوششوں کے باوجود شیعہ سنی فرقوں کے درمیان مثالی ہم آہنگی قائم ہے۔ ریاض کانفرنس میں نواز شریف کو دعوت خطاب دینے کے بعد بھی انہیں خطاب کا موقع نہیں دیا گیا ۔ جبکہ خطاب کی دعوت سعودی وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں دی تھی۔یہ بڑی شرمندگی کا سبب ہےاور اب ہمیں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا ۔ میرا مشورہ ہے‘‘ جنرل راحیل شریف آپ واپس آجاو’ انہیں آپ کے مضبوط ہاتھوں کی اب ضرورت نہیں رہی۔’’
امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ ایک بڑی سازش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ اسی گٹھ جوڑ کے سبب پاکستا ن میں دہشت گردی اور بغاوت کو ابھارا گیا ہے۔ اسی گٹھ جوڑ نے قوم کوفرقہ واریت اور نظریاتی وسیاسی انتشار کے عذاب میں مبتلا کیا ہے۔دنیائے اسلام کے خلاف موجودہ دور کی پہلی صلیبی جنگ2001ء میں شروع ہوئی تھی اور ابھی تک نہ صرف قائم ہے بلکہ نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔ پرویز مشرف نے امریکہ کے افغانستان پر حملے کے وقت پاکستان کی تاریخ کا بدترین فیصلہ کیا اور امریکہ کو افغانستان فتح کرنے میں مدد دی۔ اس بدترین فیصلے کے نتیجے میں آج سارا عذاب ہم پر مسلط ہے۔ امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑکے نتیجے میں بھارت نےافغانستان میں اپنا جاسوسی کا نیٹ ورک بنایا جسے پاکستان کے خلاف سی آئی اے’ ایم ائی۶(MI-6) ’ موساد اور نیٹو ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد حاصل رہی لیکن امریکہ نے پاکستان کے خلاف جاری اس کام کو نہیں روکا بلکہ2005ء میں بھارت کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کیا اور بھارت کو یہ ہدف دیا کہ اس علاقے میں اسلامی انتہا پسندی کوختم کرے اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو محدود کرے۔اس مقصد کیلئے افغانستان میں بھارت کی مداخلت کو جواز دینے کیلئے افغانستان کو جنوبی ایشیاء کا حصہ قرار دیا گیا جبکہ افغانستان’ وسطی ایشیا کا حصہ ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغان طالبان نے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور امریکہ کو اپنی طاقت کا محور تبدیل کرنے پر مجبورہونا پڑاہے ۔اب امریکہ کا ایشیاء پیسیفک کی جانب رجوع ہے جہاں بھارت کو اہم کردار دیا گیا ہے اور مقصد صرف یہ ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کومحدود کیا جا ئے۔اس اتحاد میں جاپان’ آسٹریلیا’ جنوبی کوریا ‘ نیوزی لینڈ اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔ یعنی سازش ختم نہیں ہوئی ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ہمارے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ اوربھارت اب اسٹریٹیجک پارٹنرہی نہیں بلکہ دفاعی پارٹنر بھی ہیں۔ یعنی امریکہ بھارت کوہائی ٹیک ہتھیار دے گا تاکہ وہ پاکستان پر اپنی برتری قائم کر سکے۔جس طرح اسرائیل پوری عرب دنیا پر حاوی ہے۔
بے شک پاکستان کو بڑے خطرات کا سامنا ہے لیکن ہماری قوم میں ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی بھر پور صلاحیت ، ہمت اور حوصلہ ہے۔ ان میں ایک خطرہ زیادہ سنگین ہے جسکی جانب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، وہ خطرہ ہے نظریات اور سیاسی ٹکراوکا’ جس کی چنگاری عبد الولی خان یونیورسٹی میں طالب علم کے قتل سے نکلی ہے۔ قتل کرنے والوں میں سے کسی کا تعلق کالعدم تنظیم سے نہ تھا اور نہ ہی وہ 32 دینی جماعتوں کے مدرسوں سے تھے۔ یہ آگ جب پھیلے گی تو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔66-1965ء میں انڈونیشیا میں ہونے والی خانہ جنگی سے زیادہ خوفناک ہوگی کیونکہ افغانستان کے‘ جہادی’، ایران کے ‘انقلابی’ اور 32 دینی جماعتیں کے ‘اضطرابی’ جو اب تک ملکی معاملات سے لاتعلق رہے ہیں وہ بھی اس آگ میں کود پڑیں گے۔ کیا حشر برپا ہو گا؟ سوچ کے خوف آتا ہے۔ اللہ تعالی ہمارے ارباب اختیار کو ان حالات کی آگہی دے اور آنے والے خطرات سے نپٹنے کی سوچ و صلاحیت عطا کرے۔ آمین