جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
نظریہ پاکستان کے تحت ہم نے 1947ء میں پاکستان بنایا یعنی مسجد بنالی لیکن اس کی حفاظت نہ کر سکے اور یہ مسجد 1971ء میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ پھر بھی ہم نمازی نہ بن سکے لیکن ایک دانشمند لیڈر نے ہمیں 1973ء کا آئین دیا اور ہمارے مقصد حیات کا تعین کیا مگر ہم اپنے مقصد حیات کے تقدس کو بھی پامال ہونے سے نہ بچا سکے اور یہی وہ کشمکش ہے جو آج ہماری قومی سلامتی کا سنگین مسئلہ ہے۔ اس عرصے میں ہم نے کن کن محاذوں پر کامیابیاں حاصل کیں اور کہاں کہاں ہمیں ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑاہے’ اس کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی موثر طور پر کی جا سکے۔
ان ستر سالوں میں مسلح افواج نے35سال حکمرانی کی ہے اور وطن عزیز کی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں جس سے بچہ بچہ واقف ہے۔پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں فوج کا کردار مثالی ہے لیکن چند اعلی عسکری قائدین نے اپنی نا اہلی کے سبب ان قربانیوں کو ضائع کر دیاہے اور ملک کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ مثلا قیام پاکستان کو دس سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ جنرل ایوب خان نے امریکہ کو اپنا آقا بنا لیا اور جلدہی اپنے اس فیصلے پرپچھتائے ’ کتاب لکھ ڈالی لیکن‘‘ اس کمبل’’ نے آج تک ہماری جان نہیں چھوڑی۔ ایوب خان مایوس ہوئے تو اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا جنہوں نے ایسی حکمت عملی اپنائی کہ ملک دو لخت ہو گیا۔ 1971ء میں جنرل نیازی نے سقوط ڈھاکہ کے معاہدے پر دستخط کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے آقاوں کی خوشنودی میں منتخب وزیراعظم کو پھانسی دینے میں کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی سلامتی کو داو پر لگادیا’ اور برادر پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے سے نہ صرف پاکستان پر دہشت گردی کا عذاب نازل ہوابلکہ افغانستان کے ساتھ ایک نیا محاذ بھی کھل گیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اس جرم میں ہماری عدلیہ’ انتظامیہ’ کچھ سیاسی و دینی جماعتیں اور اشرافیہ برابر کے شریک رہے ہیں۔
جنرل مشرف کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری فوج افغانستان کی جنگ آزادی سے لاتعلق ہو چکی ہے اور ہم یہ نہیں سوچتے کہ چار کروڑ پچاس لاکھ پختون ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب رہتے ہیں۔ ان میں سے ساٹھ فیصد پاکستان میں ہیں؛ چالیس فیصد افغانستان میں اور دس فیصد پاکستان کے دل یعنی کراچی میں آباد ہیں’ جنہوں نے گذشتہ تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی سے بڑی قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ ان کی اس جدوجہد آزادی میں پاکستانی پختونوں نے ان کی بھرپور مدد کی ہے اور یہ مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ غاصب قوتوں سےاپنی آزادی چھین نہیں لیتے۔ایک عرصہ سے پختون قوم کو تقسیم اور علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن گذشتہ ایک سو پچیس سال سے ڈیورنڈ لائن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہواہے اور اب قائد اعظم کے نظریے کو عملی جامعہ پہنانے کاوقت آگیا ہے’ قائد اعظم نے پختون قوم کو متحد رکھنے کیلئے پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے فوج کو ہٹا لیاتھا اور اس کی نگرانی پختونوں کو سونپی تھی۔قائد اعظم کا ویژن پختون قوم کی یک جہتی اور اس کے پھیلاو سے متعلق تھا جوڈیورنڈ لائن سے آگے کوہ ہندوکش تک اوراس سے آگےآمو دریا تک پھیلی ہوئی ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جسےجھٹلانے کی کوشش میں ہم نے ان سرحدوں پر دوسرا محاذ کھول لیاہے۔
ان تمام ترغلطیوں کے باوجود ہماری فوج نے 1980ء کی دہائی میں وہ صلاحیت حاصل کرلی کہ جس کے سبب اسے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہمارے تجدیدی عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوئیں۔ 1980کی دہائی میںArmed Forces War College کی بدولت ہماری عسکری قیادت اعلی عسکری تعلیم سے آراستہ ہو چکی تھی اور فوجی فارمیشنوں’اداروں اور اکثر عسکری شعبوں کی سربراہی وار کالج کے فارغ التحصیل افسروں کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نےبری فوج کے تمام نظام کو ترقی یافتہ بنانے کا جامع منصوبہ بنایا تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے کثیرالجہتی خطرات سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔دوسری بڑی تبدیلیچین کے ساتھ ہماری دفاعی شراکت مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد حقیقت حاصل کر چکی تھی۔اسی شراکت کی بدولت ہماری فوج 1971ء کی جنگ کے بعد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ ہماری عسکری قیادت اب اعلی عسکری تعلیم سے مزین ہے اورساتھ ہی ہمیں چین کی غیرمشروط مدد بھی حاصل ہے جسے ہم رحمت ایزدی سمجھتے ہیں۔یہی دو اہم عوامل ہیں جن کی بدولت پاکستانی فوج ایک جدید ترین فوج بننے کے اہداف حاصل کرسکی ہےاور نوے فیصدتک خودانحصاری اور چالیس دنوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی حاصل ہے۔الحمدو للہ
ہماری فوج کا ترویجی عمل ایک تذویراتی حقیقت ہے جو دشمنوں کے عزائم کے خلاف مضبوط چٹاں کی مانندہے’ قومی سلامتی اورترقی و کمال کی ضمانت بھی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس اشتراک کی بدولت ہمارا تذویراتی محور (Strategic Pivot)قائم ہے۔ الحمدللہ ہم نےاب وہ صلاحیت حاصل کر لی ہےجس کی بدولت اپنی تذویراتی سوچ کوجنگی منصوبوں سے ہم آہنگ کیاہے’ یعنی پہلے حملہ کرنے (Pre-emption)اور جارحانہ دفاع کی صلاحیت (Offensive Defense)میں حقیقت کا رنگ بھرنے اورحریف قوت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیسے اہداف حاصل کئےہیں۔یہ ایسی صلاحیت ہے جو بذات خود ‘‘مزاحمتDeterrence ’’ بھی ہے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فتح یاب ہونے کی نویدبھی ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جدوجہد کی اس گھڑی میں ہم تنہا نہیں ہیں’ قوم ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ہماری قوم ہی ہے جس نے انتہائی مشکل حالات کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا ہے بلکہ عزت و وقار سے زندگی گزارنا بھی جانتی ہے۔دوسری اہم بات جو ہمارے لئے انتہائی حوصلہ افزا ہے وہ ہماری مغربی سرحدوں کے پار افغانستان میں حریت پسندوں کی جدوجہدآزادی کی کامیابی ہے جواب اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔سپر پاورز کے توسیع پسندانہ عزائم کے دن گزر چکے ہیں اور عنقریب افغانیوں کے غلبے کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔
ہماری فوج کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس ہے اور اپنی قومی ذمہ داریوں کا بھی ادراک ہے لیکن ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری قوم کی پراگندہ سوچ ہے جوبے حد خطرناک ہے۔ اس خطرے سے ترکی کے صدر نے پاکستان کے دورے کے موقع پر قوم کو آگاہ کیا تھاکہ‘‘پاکستان کی سلامتی کو فتح اللہ گولن طرز کے خطرات کا سامنا ہے’’ جس سے نمٹنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی و نظریاتی تفریق خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو فوری تدارک کی متقاضی ہے۔ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ سیاسی نظام ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو ایک خطرناک صورت حال ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کااختیاردیا ہے جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصول ہیں۔یہی ہمارا نظریہ حیات ہے جس کی تشریخ ۱۹۷۳ء کے آئین میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:
‘‘پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہوگا جس کی بنیادقرآن و سنہ کے اصولوں پرقائم ہو گی۔’’
لیکن بدقسمتی سے ہم نےقرآن و سنہ کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے۔نہ ماضی کی کسی حکومت کو’ نہ موجودہ حکومت کو اور نہ ہی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے کسی کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتا۔ہم اپنے بچوں کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا نظام تعلیم قرآن و سنہ کے اصولوں سے یکسر عاری ہے۔ ہماری سیاسی و نظریاتی تفریق کاسبب ہمارا برسر اقتدار طبقہ ہے’ جس نےہمارے معاشرے کولبرل ’ سیکولر’ روشن خیال اور قوم پرست گروپوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ مذہبی طبقات نظراندازا ہونے کے سبب نمایاں سیاسی مقام نہیں رکھتےاور نہ ہی حکمرانی سے متعلق معاملات یا پالیسی سازی کے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل ہے۔وہ تو بذات خود زیادتی کا شکار ہیں اور ہمارے عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ ہماری دینی جماعتیں اپنی ظاہری اور باطنی کاوشوں کے باوجود’ جن کا پرچار میڈیا پر دن رات ہوتا ہے’ پاکستانی قوم کے رخ کودرست سمت میں رکھنے میں ناکام ہیں۔
ہمارے قومی نظریہ حیات کے دونوں عناصر کے مابین توازن پیدا کرنے کا ایک ہی راستہ ہے’ یعنی جمہوریت ہمارا نظام حکمرانی ہوگا اور قرآن و سنہ اس نظام کو نظریاتی تحفظ فراہم کرے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار’ جنہوں نے ‘‘اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی قسم کے مطابق آئین کے تحفظ اوردفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے’’ وہ قومی نظریہ حیات کے تقدس کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔لہذاموجودہ ابتر صورت حال کے تدارک کی ذمہ داری جہاں ارباب اختیار پر عائد ہوتی ہے وہاں سیاسی اور دینی جماعتوں کی بھی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ لبرل اور سیکولر عناصر ملکی معاملات سے مذہب کو الگ کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کی دانست میں ‘‘انسانی بقا کا محور اللہ تعالی کی ذات کی بجائے ترقی پسندانہ نظام ہے جو شخصی خودمختاری کا قائل ہے۔اولیت اللہ تعالی کی ذات کونہیں بلکہ انسان کو حاصل ہے۔’’ نعوذ باللہ۔ بنگلہ دیش اس امر کی واضح مثال ہے لیکن پاکستان کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔خدانخواستہ اگر ویسی صورت حال پیدا ہوئی تو پاکستان ایک طوفان میں گھر جائے گا۔ کچھ ایسے ہی حالات 1965-66 میں انڈونیشیا کو درپیش تھے جب سوشلزم اور کیمونزم کی تبلیغ کی جارہی تھی جس کےخلاف وسیع پیمانے پراحتجاجی تحریک چلی اورخانہ جنگی ہوئی جو ڈیڑھ ملین عوام کی موت کا سبب بنی اورآخر کار صدر سہارتو نے اقتدار سنبھالا۔خدانخواستہ اگر ہم اس گرتی ہوئی صورت حال کا تدارک کرنے میں ناکام رہے توہمیں تباہ کن خطرات کا سامنا ہوگا کیونکہ پاکستان انڈونیشیا کی طرح جزیرہ نہیں ہے۔ہمارے پڑوس میں انقلابی ایران اور افغانستان جیسے جہادی ممالک ہیں جو خاموش نہیں بیٹھیں گے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوگا جسے سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہماری افواج اپنی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اپنی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔ہمارا نظریہ حیات کمزور ہو چکا ہے اور جب نظریہ حیات کمزور ہو جائے تو قوم باوقار زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔آج جو سیاسی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے وہ ہم سب کیلئے اور خصوصا ہمارے قائدین کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ایک جانب عدلیہ اور ملکی سلامتی کے محافظ اداروں پر تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب انسانیت و اخلاقیات کے تمام تر تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئےانتہائی بھونڈے طریقوں سےایک دوسرے کی کردار کشی کی جارہی ہے۔عام آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا یہی جمہوریت ہے اور یہی اس کے ثمرات ہیں? ہمارے ایک دانشور کے بقول‘‘ہماری قوم آج ان مسائل کی بجائے اپنے آپ سے برسرپیکار ہے جو ایک تباہ کن شغف ہے۔ اس میں جیت ہی ہماری سب سے بڑی ہار ثابت ہوگی۔’’ ان الفاظ میں ایک واضح پیغام بھی ہے کہ اگر ہماری سیاسی و دینی جماعتیں اپنے فکر و عمل سے اپنی استعداداور کارکردگی کا معیار عسکری اداروں کے برابر نہیں لا سکتے تو جمہوری قوتوں کو کبھی بھی استحکام حاصل نہیں ہوگا’ ایک خوف طاری رہے گا جس کے سبب حکومتیں اعصابی دباو میں رہ کر غیر اخلاقی حرکتوں کی مرتکب ہوتی رہیں گی۔ ایسی حرکتیں جو پاکستانی قوم کی پہچان ہر گز نہیں ہیں۔