طارق سعیدی
نہ تو میں اونٹ تھا اور نہ ہی وہ بات تنکا مگر نتیجہ کچھ ایسا ہی نکلا ۔
جیدے نے کہا، استاد یہ بتا کہ ہمارے پیران روشن ضمیر انسان کے ایمان کی اصل کیفیت تو دعوے سے بیان کر سکتے ہیں مگر یہ اطلاع دینے سے قاصر رہتے ہیں کہ فلاں بچہ آج شام اغوا ہو جاے گا اور تین دن تک جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد قتل کر دیا جاے گا۔
میں نے جواب دیا، غیب کا علم تو صرف خدا کی ذات کو ہے۔
اس نے پوچھا غیب کیا ہے۔
میں گھبرا گیا ۔ جیدا نہ جعلی منطق مانتا ہے نہ اصلی منطق میں جعلسازی کرنے دیتا ہے۔
میں نے جواب دیا، غالباٌ غیب کے تین معنیٰ ہو سکتے ہیں ۔۔۔ غایئب یا مسطور، غیر معلوم، اور وہ بات جو ابھی مستقبل میں پوشیدہ ہو۔
تھوڑی دیر بعد میں نے (گوگل کی مدد سے) بزعم خود بڑا عالمانہ ٹکڑا اپنے جواب میں شامل کیا ۔
میں نے کہا، قرآن پاک میں الغیب کا لفظ تقریباٌ ساٹھ جگہ مختلف پیراے میں آیا ہے۔ اور شارحین یہ سمجھے ہیں کہ غیب کے دو درجے ہیں ۔ الغیب المطلق یعنی وہ بات یا واقعہ یا امر جس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہ ہو، اور الغیب النسبی یعنی وہ بات جو اپنی حالت یا موقعہ کی مناسبت سے بعض کے علم میں ہو اور بعض کے علم میں نہ ہو، جس کے بارے میں بعض کو جزوی علم ہو، بعض کو کلی علم ہو، اوار بعض کو کوئی علم نہ ہو۔
یہ آ بیل مجھے مار والا معاملہ ہو گیا۔
جیدے کے چہرے پر سفاک مسکراہٹ صاف نظر آرہی تھی۔
تمہاری اس تشریح کے مطابق ایمان تو الغیب المطلق ہوا کیونکہ نہ تو وہ کسی کو نظر آ سکتا ہے، نہ اس کا کوئی معروف جسم یا شکل ہے اور نہ ہی کوئی اور طبعی خواٰص۔ گویا کہ ایمان کہ موجودگی یا عدم موجودگی یا اس کی صحیح کیفیت صرف خدائے علیم و خبیر کے علم میں ہو سکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں ایک بچہ الغیب النسبی ہوا کیونکہ اس کا ایک مستقل جسم اور شکل ہے، وہ جہاں موجود ہے وہاں کے لوگوں کے لئے حاضر ہے اور جو وہاں موجود نہیں ان کے لئے غیب۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے مقابلے میں ایک بچے کی حالت کے بارے میں جاننا پیران روشن ضمیر کے لیئے زیادہ آسان ہونا چاہئے۔
یہ زخم لگانے کے بعد اس نے اس پر مٹھی بھر نمک چھڑکا۔
تمہاری علمی پھلجھڑی تو بھیگی ہوئی نکلی۔
اگر ایمان از قسم الغیب المطلق ہے جس کو ماپنے کا طریقہ نہ خدائے بزرگ و برتر نے بتایا نہ نبی کریم ﷺ نے اس قسم کی کسی کوشش کی حوصلہ افزائی کی تو ایمان کے کھرے یا کھوٹے ہونے کی کسوٹی لوگوں کہ کہاں سے حاصل ہو گئی۔
اس کے مقابلے میں ایک بچہ ایک ایسی حقیقت ہوتا ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ جسے کھلونا دیں تو خوش ہوتا ہے، گھور کر دیکھیں تو روتا ہے۔
یہ بتا استاد، ایک بچے کا وجود ثابت کرنا آسان ہے یا ایمان کا۔
اگر میں ثابت کرنا چاہوں کہ ایک بچہ موجود ہے تو میں تمہیں وہاں لے جاؤں گا جہاں وہ بچہ موجود ہو اور دکھا دوں گا۔
مقابلتاٴ، اگرمیں کسی کا ایمان دیکھنا یا دکھانا چاہوں تو میرے پاس کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
جیدے کی کاری لات اپنی پسلیوں پر کھانے سے مجھے وہ واقعہ یاد آ گیا جس نے میری زندگی کا رخ بدل ڈالا۔
ٴٴٴٴ۔۔۔۔۔
جاری ہے