طارق سعیدی
شاید ۱۹۹۵ کی بات ہے، میں کراچی میں صدر کے علاقے سے کورنگی کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا جہاں میں ان دنوں رہتا تھا۔ مغرب کے بعد کا وقت تھا اور جب میں ایمپریس مارکٹ سے مڑا تو گاریوں کے رش کی وجہ سے آگے بڑہنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو گیا۔
بمپر سے بمپر لگا ہوا تھا۔ ہر گاڑی والا پورے خلوص سے ہارن بجا رہا تھا، گویا کہ ہارن کہ بھیانک آواز سے اگلی سب گاڑیاں ہوا میں تحلیل ہو جاٰئیں گی اور سڑک کھل جائے گی۔
میں نے بھی یہی کچھ کیا مگر بے سود۔ اعصاب ربڑ بینڈ کی طرح تنتے چلے گئے مگر گاڑیاں ٹس سے مس نہ ہوئیں۔
اس صور اسرافیل کا بہر حال یہ فائیدہ ہوا کہ ہم سب جو گالیاں دے رہے تھے وہ ہماری اپنی اپنی گاڑیوں تک محدود رہیں۔
جب غصہ بےبسی میں بدلنے لگا تومیں نے آس پاس دیکھا۔ زیادہ تر لوگ اپنی اپنی گاڑیاں آڑی ترچھی پارک کر کے بائیں طرف ایک گلی میں پیدل جا رہے تھے۔ میں نے بھی اپنی گاڑی کی چونچ دو کھڑی ہوئی گاڑیوں کے درمیان گھسائی اور دروازہ لاک کر کے ان کے پیچھے چل پڑا۔
سب لوگ ایک مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ چونکہ بیس سال سے پاکستان سے باہر ہوں، مسجد کا نام مجھے بھول گیا ہے، شاید مسجد قصاباں نام تھا۔
اس بڑی سی مسجد میں جلسہِ عید میلاد النبی ﷺ ہو رہا تھا جس میں حضرت سلطان باہوؒ کی درگاہ کے سجادہ نشین مہمان خصوصی تھے۔
میں بھی وضو کرکے جا بیٹھا۔
سجادہ نشین صاحب کا شملہ اونچا تھا اور چہرے پر چمکدار تراوٹ تھی۔ ان کے دایئں بایئں دو نو جوان بیٹھے ہوئے تھے جو غالباّ ان کے بیٹے تھے کیونکہ یکے بعد دیگرے مقررین ان کو شہزادگان کے نام سے مخاطب کر رہے تھے۔
جیسا کہ اس قسم کی محفلوں میں ہوتا ہے، لوگ تواتر سے ایک روپیہ اپنی جیب سے نکالتے، کسی اور کے سامنے جا کھڑے ہوتے، وہ بھی ایک روپیہ نکال کر اس میں ملاتا اور اس طرح تین چار لوگ چار روپئے کے بھاری بوجھ تلے جھکے جھکے سے چلتے ہوئے سٹیج پر جا چڑہتے جہاں ایک قدرے کم درجے کا گماشتہ ان کے چار روپیوں کو ان کے ہاتھ سے لے لیتا اور وہ خوش و خرم سجادہ نشین صاحب کے سامنے دوہرے ہوتے ہوئے دوسرے سرے سے سٹیج سے اتر جاتے۔
اتنے میں ایک چھوٹا سا بچہ سٹیج پر چڑہا۔ بہت چھوٹا سا تھا، شا ید چھے سال کا بھی نہ ہو گا۔ وہ اکیلا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک روپیہ تھا۔ روپئے کی وصولی پر مامور گماشتے نے اس بچے کے ایک روپئے کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ وہ مایوس نہ ہوا اور دو قدم آگے بڑھ کر سجادہ نشین صاحب کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس معصوم بچے کو اعتماد ہو گا کہ یہ نورانی صورت بزرگ ابھی اس کے ہاتھ سے ایک روپیہ لے لیں گے اور شاید اس کے سر پر دست شفقت بھی پھیر دیں گے۔
مگر ہوا کچھ اور۔
سجادہ نشین صاحب کے ایک عالی مرتبت شہزادے نے بچے کے ہاتھ سے روپیہ جھٹک کرچھینا اورایک درشت دھکے سے اسے آگے روانہ کر دیا۔
مجھے زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن والی بات یاد آ ئی۔
جلسے کا موضوع تو سیرت النبی ﷺ تھا مگر تمام کے تمام مقررین ایک ہی نکتے پر مختلف سمتوں سے زور دے رہے تھے۔
مجھے سال صحیح سے یاد نہیں، شاید ۱۹۹۵ ہی تھا۔ توہین رسالت کے ایک کیس کا ذکر تھا جس میں، مقررین کے مطابق، کسی عیسائی نے توہین رسالتؐ کا ارتکاب کیا اور بینظیر بھٹو صاحبہ نے جو ان دنوں وزیر اعظم تھیں اسے آزاد کر دیا اور ان نے جرمنی میں سیاسی پناہ لے لی۔
انتہائی پراثرالفاظ ان کے منہ سے آ ب روان کی طرح بہ رہے تھے۔ آنسو بہ نکلنے کو بیتاب تھے۔ ان کی تمام گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ کیا تم لوگوں میں ایک بھی غیرت مند نہیں، ایک بھی رسول پاک ﷺ کا چاہنے والا نہیں جو جا کر بینظیر بھٹو کو قتل کر دے۔
تین گھنٹے کی تلقین کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے سوچا چلو میں ہی جا کر یہ کارخیر کر دیتا ہوں۔ ویسے بھی اس وقت نہ میرے کوئی بیوی بچے تھے نہ کو ئی اور ایسی ذمے داری جو صرف مجھ سے ہی مخصوص ہو۔
رات گیے جب جلسہ ختم ہوا تو میں اس چھوٹے سے کوارٹر میں واپس چلا گیا جس کو میں اپنا گھر تصور تھا اور اگلے دن ظہر کے وقت واپس اسی مسجد میں جا پہنچا۔ نماز ظہر کے بعد میں نے پیش امام صاحب سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ مجھے فتویٰ دیں کہ بینظیر صاحبہ کو قتل کرنا لازم ہو گیا ہے تا کہ میں جا کر یہ فریضہ انجام دے دوں۔ وہ کچھ گھبرا سے گیے۔ انہوں نے کہا کہ میں مفتی نہیں جو فتویٰ دے سکوں۔
میں نے عرض کیا کہ کہاں سے ایسا فتویٰ مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ مفتی شفیع اوکارڑوی صاحب والی مسجد میں چلے جایئں جو کہ سولجر بازار میں ہے اور وہاں مفتی رفیق صاحب سے مل لیں۔
میں عصر کے وقت اسی مسجد میں چلا گیا اور نماز کے بعد مفتی رفیق صاحب سے ملا جو مسجد کے صحن سے ملحقہ ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے بٹھایا اور ملک پاوڈر سے چائے بنائی اور بات شروع کی۔
میں نے اپنی عرضداشت دوہرائی کہ مجھے بینظیر صاحبہ کے قتل کا فتویٰ چاہیے۔
وہ میری بات سن کر کھلکھلا کر ہنسے۔
انہوں نے پوچھا، کیا کل رات آپ اس جلسے میں موجود تھے۔
میں نے کہا جی ہاں۔
انہوں نے کہا آپ نے اسی وقت کھڑے ہو کر کیوں نہ کہا کہ آپ لوگ خود جا کر کیوں نہیں یہ نیک کام انجام دے دیتے۔ آپ اسی وقت کہ دیتے کہ اس اعزاز کے حقدار تو ہم سے زیادہ آپ لوگ ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ وہ بیش قیمت لوگ ہیں جب کہ میری جان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ لگتے تو آپ پڑہے لکھے ہیں لیکن بات جاہلوں والی کی۔
انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر ایک جان کی وقعت ایک جیسی ہے۔
پھر انہوں نے کہا، بنیادی اصول یہ ہے کہ جو چیز آپ دے نہیں سکتے وہ آپ لے بھی نہیں سکتے۔ چونکہ آ پ جان دے نہیں سکتے اس لیے آپ جان لے بھی نہیں سکتے۔ کسی کی جان لینا ایک حتمی قدم ہے جس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں اس لئے کوئی اسلامی اصولوں پر کاربند حکومت یا اسی حیثیت کا کوئی مجاز ادارہ ہی ایسا حکم جاری کر سکتا ہے۔
اس کے بعد مفتی صاحب نے موٹی سوئی سے میری شخصیت کے بخیئے ادھیڑنا شروع کیئے ۔
انہوں نے ایک طالبعلم کو ایک روپیہ دے کر بسکٹ منگوایے اور ہم سستے ملک پاوڈر والی چائے میں نمکین بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھانے لگے۔
انہوں نے کہا، چلو فرض کرتے ہوں کہ میں تمہیں فتویٰ دینا چاہ رہا ہوں کہ بینظیر صاحبہ کا قتل جائزہے۔
پہلے یہ بتاؤ کہ اس عیسائی نے واقعی توہین رسالتؐ کا ارتکاب کیا۔
میں نے کہا، میرے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی مسلمان نے حضرت عیسیؑ کی شان میں گستاخی کی ہو اور اس کے جواب میں اس عیسائی نے کچھ کہا ہو۔
میں نے کہا، ہاں ایسا ممکن ہے۔
انہوں نے کہا، حضرت عیسیؑ پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں اور ان کی ناموس کی حفاظت بھی ہمارا فرض ہے۔ ایسی صورت میں آپ پر لازم ہو گا کہ آپ اس عیسائی اور اس مسلمان دونوں کو قتل کر دیں۔
مفتی صاحب ہنسے اور کہا بہتر ہے ایک فہرست بنانا شروع کرو کہ کس کس کو قتل کرو گے۔
انہوں نے کہا، کیا یہ ممکن ہے کہ اس عیسائی کو پولیس والوں نے پیسے لے کر چھوڑ دیا ہو۔
میں نے کہا ہاں یہ ممکن ہے۔
انہوں نے کہا تب تو ان پولیس والوں کو بھی ڈھونڈھ کر اپنی فہرست میں شامل کرو۔
پھر مفتی صاحب نے کہا، اگر بننظیر صاحبہ نے واقعی اس عیسائی کو آزاد کرنے اور ملک سے فرار کروا دینے کا حکم جاری کیا ہے، تو ضرور کچھ لوگوں نے یہ فایئل تیار کی ہو گی اور ان سے حکم جاری کرانے کے بعد عملدرآمد کے لیے ہدایات دی ہوں گی۔
شاید ایسا ہی ہوا ہو، میں نے کہا۔
انہوں نے کہا، اس کا مطلب ہے مزید درجن بھر افراد کے نام تلاش کرکے آپ کی اس فہرست قتال میں شامل کرنے پڑیں گے۔
پھر انہوں نے کچھ دیر سوچا اور ایک نئے رخ سے بات شروع کی۔
وہ کہنے لگے، میں جھنگ کے علاقے سے ہوں جہاں شیعہ سنی فساد ایک تلخ حقیقت ہے۔ یہ فسادات عموماٌ جمعہ کی نماز کے بعد شروع ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ نماز جمعہ کے بعد سنیوں کے علاقے میں تین کتے گلیوں میں بھاگے پھر رہے تھے۔ ان کے گلے میں گتے کے ٹکڑے لٹک رہے تھے۔ ان تختیوں میں ایک پر (نعوذ با اللہ) لکھا تھا ابو بکرؓ، دوسری پر عمرؓ اور تیسری پر عثمانؓ۔
لوگ یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے۔ قریب تھا کہ سب سنی نوجوان مل کر شیعوں کے محلے پر حملہ کر دیتے، کہ ایک بزرگ نے کہا، ٹھہرو۔
انہوں نے کہا، پہلی بات تو یہ ہے کہ کتے اپنے علاقے میں ہی گھومتے ہیں اور یہ کتے یہیں کے ہیں۔ کیا شیعوں نے یہ خطرہ مول لیا ہو گا کہ ہمارے محلے میں آ کر یہ کام کریں۔
دوسری بات یہ کہ، ان گتوں پر اچھی طرح ہاتھ جما کر لکھا گیا ہے اور شاید ہمارے ماسٹر صاحبان لکھائی پہچان لین کہ ممکن ہے ہمارے محلے کے نوجوانوں میں سے کسی نے یہ فساد برپا کرنے کہ کوشش کی ہو۔
قصہ مختطر، گھنٹے بھر کی تحقیق سے پتہ لگ گیا کہ اسی سنی محلے کے دو لڑکوں نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ یوں ایک بڑا فساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔
جب مفتی صاحب میرے شخصیت کے تمام بخیے ادھیڑ چکے تو تمام ٹکڑے نئی ترتیب سے تہ بتہ کر کے میرے ہاتھ پر رکھ دئے، شاید اس امید پر کہ کسی وقت ان کو سی کر کویئ مفید چیز بنانا ممکن ہو۔
انہوں نے کہا، دیکھو، سب سے پہلا دائرہ سب سے چھوٹا ہے جس میں تم اب تک جیتے رہے ہو۔
میں نے عرض کیا، کنویں کے مینڈک کی طرح؟
وہ مسکرائے، سمجھدار ہو، میں کیا کہوں۔
یہ دائرہ شروع میں خالی ہوتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اس کی آرایئش کر لیں۔ اس کو آزادی شعور یا فری ول کہ سکتے ہو۔
لیکن کرتے ہم یہ ہیں کہ بڑی محنت اور محبت سے ہم اس دائرے کو تعصبات اور تحفضات سے بھر لیتے ہیں۔ پھر ہم انہیں دن رات رنگتے اور سنوارتے رہتے ہیں حتیٰ کہ یہی ہماری بنیادی شناخت بن جاتے ہیں۔ ہم اپنے توہمات کے عشق میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
پھر مفتی صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا بات مختصر کرتا ہوں۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھ کرپلے سے باندھ لو کہ قرآن پاک تمہارے خدا کا تمہارے لیئے ذاتی پیغام ہے۔ خود سمجھ کر پڑہو، بار بار پڑہو، جس ترتیب سے چاہو پڑہو، اور دل میں یہ التجا رکھو کہ اس سے ہدایت ملے، اندھیرا دور ہو، دل میں مستقل اجالا ہو جائے۔
پھر انہوں نے ایسی بات کی جو سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، دل ہیبت سے کانپنے لگا۔ اس لمحے مفتی صاحب کا چہرا مجھے ہو بہو بابا ہدایت کا چہرا لگا۔ بابا ہدایت کا ذکر پھر کبھی سہی۔
انہوں نے کہا، یہ جو تم عرصے سے صوفی طرز فکر کے کنارے پڑاؤ ڈالے پڑے ہو، اب اٹھو اور چل پڑو۔
یہ حقیقت تھی کہ کچھ عرصے سے میں اپنی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا ۔ لیکن مفتی صاحب کو اس کا علم کیسے ہوا۔
وہ کہنے لگے، سب سے پہلا حکم رب تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہمارے رسول کریم ﷺ پر کیا نازل ہوا ۔۔۔۔ پڑھ، پڑھ اپنے رب کے نام سے، جس نے تخلیق کیا۔
یہیں سے شروع کرو۔ پڑہتے تو بہت ہو، اب سمجھ کر پڑہو، اور پڑھ کر اسے ہضم کرو، جگالی کر کے اگلو مت۔
تم اس نبی ﷺ کے ماننے والے ہو جس نے دعا کی کہ دو عمر میں سے ایک کے ذریعے اسلام کو تقویت ہو، یہ دعا نہ کی کہ دونوں عمر، جو اس وقت شدید ترین دشمنان اسلام میں سے تھے، کو ہلاکت ہو۔ جب طائف کا پہاڑ ظالموں پر الٹ دینے کا اختیار آ پہنچا تو فرمایا کہ نہیں، شاید آیندہ ان میں سے ہدایت قبول کرنے والے پیدا ہوں۔
اگر تم نبی کریم ﷺ سے سچی محبت رکھتے ہو، جو میں جانتا ہوں تم ضرور رکھتے ہو، تو ان کے طرز عمل پر ہمیشہ نظر رکھو۔
لوگوں کے لئے ہدایت مانگو، ہلاکت نہ مانگو نہ چاہو۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے لئے ہدایت مانگتے رہو، ہر روز، ہر لمحہ۔
صوفیانہ طرز زندگی عمل ہے، فسانہ ہائے کرامات نہیں۔
جاؤ ۔ اللہ کی روشنی میں چلتے جاؤ ۔ اب جاؤ۔
اس دن میں مفتی صاحب کے کمرے کے بوسیدہ قالین پر از سر نو پیدا ہوا اور چل پڑا۔
۔۔۔۔۔
جاری ہے
۔۔۔۔۔