جنرل مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی سٹاف پاکستان
friendsfoundation@live.co.uk
چین کے ساتھ ہماری دفاعی شراکت مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد نوعیت کی بھی ہے۔اسی شراکت کی بدولت ہماری مسلح افواج اور بالخصوص پیادہ فوج 1971ء کی جنگ کے بعد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ہمیں اپنی فوج کی کمزوریوں کو دور کرنے اور مستقبل میں مسلح افواج کو جدید تقاضوں کے مطابق ترقی دینے کی شدیدضرورت تھی ۔خوش قسمتی سے 1980کایہ وہ وقت تھا جب بری فوج کومستقبل کی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے ہماری عسکری قیادت اعلی عسکری تعلیم سے مزین تھی اورساتھ ہی ہمیں چین کی غیرمشروط مدد بھی حاصل تھی جسے ہم رحمت ایزدی سمجھتے ہیں۔یہی دو اہم عوامل تھے جن کی بدولت پاکستانی فوج ایک جدید ترین فوج بننے کے اہداف حاصل کرسکی ہےاور نوے فیصدتک خودانحصاری اور چالیس دنوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی حاصل ہے’الحمدو للہ ہماری مسلح افواج جدید ترین لڑاکا قوت بن گئی ہیں جس کا شمار دنیاکی بہترین مسلح افواج میں ہوتاہے۔
اعلی عسکری تعلیم
1980کی دہائی میںArmed Forces War College کی بدولت ہماری عسکری قیادت اعلی عسکری تعلیم سے آراستہ ہو چکی تھی اور فوجی فارمیشنوں’اداروں اور تمام عسکری شعبوں کی سربراہی وار کالج کے فارغ التحصیل افسروں کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نےبری فوج کے تمام نظام کو ترقی یافتہ بنانے کا جامع منصوبہ بنایا تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے کثیرالجہتی خطرات اورجنگ کے چیلنجوں سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔ اس منصوبے کی منظوری چیف آف آرمی سٹاف نے دی اور راقم کو بحیثیت چیف آف جنرل سٹاف ’ ذمہ داری دی کہ مسلح افواج کونئے اسلحہ جات’ عسکری سازوسامان اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کے ذرائع تلاش کئے جائیں تاکہ ترویج اورترقی کا منصوبہ مکمل کیا جا سکے۔ہم نے متعدددوست ممالک سے رابطے کئے اوربالآخر چین کی جانب سے حوصلہ افزا جواب ملا۔
چین کے ساتھ عسکری اشتراک
1982 کے اوائل میں راقم نے مطلوبہ سامان کی تلاش کیلئے چین کا پہلا دورہ کیا۔ہمارےپاس مطلوبہ سامان کی ایک فہرست تھی اور ہمیں 600 ملین ڈالر کے اندر رہتے ہوئے خریداری کرنی تھی۔ تین دنوں میں ہماری چینی حکام کے ساتھ تین ملاقاتیں ہوئیں اور ہمیں بتایا گیا کہ معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے ہم چار ہفتوں بعددوبارہ آئیں۔ اگلے ماہ ہم پھرچین جا پہنچے جہاں ہماراپرتباک خیرمقدم کیا گیا اور ہمیں ایک کانفرنس روم میں لائے جہاں سول کپڑوں میں ملبوس متعد د چینی بزرگ ہمارے منتظرتھے۔میں نے اپنے میزبان سے پوچھا:
‘‘کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ ہمیں غلط جگہ پر لے آئے ہیں?”
ہمیں جواب ملا ‘‘نہیں’ بلکہ ہم آپ کو اپنی معروف دفاعی پیداواری کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات
کیلئےیہاں لائے ہیں’ جوآپ کو بتائیں گے کہ ان کے پاس آپ کو دینے کیلئے کیا کچھ ہے اور کب تک وہ آپ کا
مطلوبہ سامان حرب آپ کو دے سکیں گے۔’’
ہمیں اطمینان ہوا اور میٹنگ شروع ہوئی۔ سامان کی فہرست’ جو ہم نے گذشتہ ماہ ان کے حوالے کی تھی’اس پر بات چیت کرنے میں ایک گھنٹہ لگا اور وہ ہماراتمام مطلوبہ سامان’ بغیر کسی پیشگی شرط کے دینے پروہ رضا مند ہو گئے۔ہم نے ان کاشکریہ ادا کیا اور اس سے پیشترکہ ہم رخصت ہوتے ہمارے میزبان نے پوچھا:
‘‘کیا آپ کو یہی کچھ چاہیئے تھا یا کچھ اور بھی ہے?’’
‘‘ہمیں چاہیئے تو اور بھی بہت کچھ لیکن ہمیں اپنےوسائل کے اندر رہ کر خریداری کرنی ہے’ یعنی 600 ملین ڈالر ’
جو ہمیں فراہم کئے گئے ہیں۔’’
‘‘ٹھیک ہے’ لیکن ہم آپ کے مطلوبہ سامان کی فہرست دیکھنا چاہیں گے۔’’
میں نے فہرست نکالی اور ایک ایک ائیٹم (Item)پر بات کی۔ہمارے چینی دوستوں نے ہر مطالبے کو خوش
دلی سے قبول کرلیا لیکن جب حساب کتاب کیا گیا تو معاملہ 1.7 بلین ڈالر تک جا پہنچا۔
میں نے کہا: ‘‘ہم اتنی بھاری رقم کیسے ادا کریں گے?’’
ہمیں جواب ملا: ‘‘آپ اپنی سہولت کے مطابق جیسے چاہیں’آئندہ پچیس(25) سالوں میں برائے نام
مارک اپ کے ساتھ ادائیگی کریں۔’’
ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی اور پورےاعتماد کے ساتھ وطن واپس لوٹے اور کامیابی کی کہانی چیف آف آرمی سٹاف اوردیگر ساتھیوں کو سنائی۔یہی وہ مقام تھا جب فوج میں ٹیکنالوجی کی منتقلی’ خودانحصاری’ اسلحہ سازی کے نظام کی وسعت ’ہتھیاروں اور میزائل کے نظام کی ترقی اورملکی سطح پر انجینئرنگ کے شعبہ کی ترقی کیلئے نئے دور کا آغاز ہوا’ جس کی بدولت ایک دہائی سے بھی کم مدت میں ہم نے بھرپور صلاحیت حاصل کر لی۔ جہاں مشکل پیش آئی وہاں عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر قیادت ماہر سائنسدانوں کی ایک بڑی جماعت موجود تھی جو ہرپروگرام کو پائیہ تکمیل تک پہنچاتی رہی۔1988ء میں ہم نے الخالد ٹینک کا تجربہ کیا جس نے ‘‘پانچ تجرباتی مراحل’’ میں امریکہ کے بہترین ایم ون اے ون(M1A1)ٹینک کو مات دے دی۔اسی طرح ہم نے اعلی تکنیکی ہتھیاروں’عسکری سازوسامان اور گولہ باررود تیار کرنے کے میدان میں نوے فیصد تک خودانحصاری حاصل کر لی جو ایک خواب تھا’ جس کی تعبیر چین کی عسکری قیادت اور اس کی دفاعی پیداواری صنعتوں کی غیر مشروط مدد سے ممکن ہوئی۔کوئی اور ملک اس حد تک ہماری مدد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ان کا مفاد محض فوجی سازوسامان فروخت کرکے پیسے بنانا ہوتا ہے۔
چین کے عوام انتہائی مخلص اور کھلے دل کے لوگ ہیں ۔ انہوں نے کبھی ہماری اندرونی سیاست میں دخل اندازی نہیں کی’ نہ ہی وہ ہماری حکومتوں کو گرانے اور بنانے کے مکروہ کھیل میں ملوث ہوئے ہیں اور نہ ہی ہماری فوجی یا سویلین حکومتیں ان کی ترجیحات میں شامل رہی ہیں۔ ان کی واحد ترجیح پاکستانی عوام کی بھلائی ہے’ اور یہی وہ تعلق ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے ہیں ’ ایسا احترام جو کسی اورملک کے نصیب میں نہیں ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہےکہ اسی دفاعی اشتراک نے ہمیں الخالد جیسا ٹینک’ کثیرالجہتی کردار کا حامل جےایف سترہ تھنڈر طیارہ اور جدید ترین F-22 Frigateبحری جہاز دیے ہیں اور اسی تعلق کی بنیاد پر آج پاک چین اقتصادی راہداری’ کے منصوبے کی عمارت تعمیر ہو رہی ہے۔یہ کامیابی نہ صرف پاکستان کیلئے ترقی و امن کی ضمانت ہے بلکہ پورے خطے کی اقتصادیات میں انقلاب لانے کا پیش خیمہ ہے۔
دونوںممالک کے درمیان عسکری و اقتصادی تعاون کا یہ عمل ایک تذویراتی حقیقت ہے جو دشمنوں کے عزائم کے خلاف ایک مضبوط چٹاں ہے’ قومی سلامتی اورترقی و کمال کی ضمانت بھی ہے۔ دونوں ملکوں کا یہ اشتراک ہمارا تذویراتی محور (Strategic Pivot)ہے۔ الحمدللہ ہم نےاب وہ صلاحیت حاصل کر لی ہےجس کی بدولت اپنی تذویراتی سوچ کوجنگی منصوبوں سے ہم آہنگ کیاہے’ یعنی پہلے حملہ کرنے (Pre-emption)اور جارحانہ دفاع کی صلاحیت (Offensive Defense)میں حقیقت کا رنگ بھرنے اورحریف قوت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیسے اہداف حاصل کئےہیں۔یہ ایسی صلاحیت ہے جو بذات خود ‘‘مزاحمتDeterrence ’’ بھی ہے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فتح یاب ہونے کی نویدبھی ہے۔
یہی اعتماد ہے جس کی بنیاد پر میں ایک نئے منصوبے کی تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں جو میں نے چین کے سفیر کو 2011ء میں پیش کیا تھا۔ یہ منصوبہ 1994ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ’ ان کی درخواست پرعالمی بینک نے تیار کیا تھا۔ منصوبے کی تمام تفصیلات وزارت مواصلات کے پاس موجود ہیں۔یہ منصوبہ Inland Water Transportation کے نام سے موسو م ہے جو دریائے سندھ کے ساتھ حویلیاں سے کراچی تک تعمیر کیا جاسکتا ہے جس کی لمبائی ۲۰۰۰ کلومیٹر سے زیادہ ہے۔یہ منصوبہ سستی ترین سفری سہولیات فراہم کرے گا۔اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں پانی جمع کرنے کے ذخائر میں بہت بڑااضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ نئے شہر آباد کرنے’ صنعتی زون قائم کرنے اورکئی ملین ہیکٹر بارانی زرعی زمینوں کو قابل کاشت بنایا جا سکے گا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے بھی مددگارثابت ہوگا جس سے ہماری اقتصادیات’ ماحولیات’ معاشرتی روابط اور قومی یکجہتی جیسے معاملات پر منفعت بخش اثرات مرتب ہوں گے۔مجھے یقین ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں’ خلوص نیت شرط ہے۔